نائن الیون کے بعد ساری دنیا دہشت گردی کی لپیٹ میں
گیارہ ستمبر سنہ دو ہزار ایک یعنی آج سے سولہ برس قبل امریکہ کو دو تباہ کن دہشت گردانہ حملوں کا سامنا کرنا پڑا۔ ہائی جیکروں نے تین مسافر بردار ہوائی جہازوں کو ہائی جیک کر لیا اور نیویارک میں ورلڈ ٹریڈ سینٹر اور واشنگٹن میں امریکی وزارت جنگ کی عمارت پر حملہ کر دیا جس کے نتیجے میں تقریبا تین ہزار افراد موت کے منہ میں چلے گئے۔
اس وقت کی امریکی حکومت نے القاعدہ کو ان واقعات میں ملوث قرار دیا اور ان واقعات کا انتقام لینے کے لئے افغانستان پر حملہ کر دیا اور دو سال کے بعد امریکیوں نےبقول ان کے دہشت گردی کے خلاف جنگ جاری رکھتے ہوئے عراق پر بھی حملہ کر دیا۔ نائن الیون کے واقعات کو امریکہ کی تاریخ میں اس ملک کو لگنے والا سب سے بڑا سیکورٹی دھچکا قرار دیا جاتا ہے۔ ان واقعات کو سولہ برس مکمل ہوگئے ہیں۔ ایسا لگتا تھا کہ امریکیوں کو لگنے والے اس سیکورٹی دھچکے کے بعد اس ملک اور عالمی برادری کو ہمیشہ کے لئے دہشت گردی سے نجات مل جائے گی۔ لیکن سولہ برس کی سیاسی اور سیکورٹی کی تاریخ پر ایک نظر ڈالنے سے پوری طرح واضح ہوجاتا ہے کہ امریکی حکومت کو دہشت گردی کے مقابلے کے اپنے مقصد میں ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا ہے۔
امریکہ کی خارجہ تعلقات کونسل کے رکن میکا زینکو (Micah Zenko) نے اخبار نیویارک میں شائع ہونے والے اپنے ایک مقالے میں لکھا ہے کہ امریکی وزارت خارجہ کے اعلان کے مطابق غیر ملکی دہشت گرد گروہوں کی تعداد سنہ دو ہزار دو میں اٹھائیس تھی اور اب یہ تعداد بڑھ کر اکسٹھ تک پہنچ گئی ہے۔ میکا زینکو نے اس کے بعد یہ سوال اٹھایا ہے کہ دہشت گرد گروہوں کی تعداد میں یہ اضافہ کیونکر ہوا ہے؟
ان سولہ برسوں کے دوران امریکہ نے چند ممالک پر قبضہ کر لیا یا ان کو اپنے ڈرون حملوں کا نشانہ بنایا۔ کہا جاتا ہے کہ افغانستان اور عراق میں جنگوں کی وجہ سے امریکی ٹیکس دہندگان کے کاندھوں پر بالواسطہ یا بلاواسطہ طور پر چھ ٹریلین ڈالر سے زیادہ کا بوجھ پڑا۔ ان جنگوں میں عراق، افغانستان، شام، لیبیا اور یمن میں نام نہاد دہشت گردی کے مقابلے میں دس لاکھ سے زیادہ انسان اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ عراق میں چار ہزار پانچ سو امریکی فوجی ہلاک ہوئے۔ جنگ ویتنام کے بعد جنگ عراق میں ہی امریکہ کے فوجی اتنی بڑی تعداد میں ہلاک ہوئے تھے۔ اس کے ساتھ ساتھ امریکی حکومت نے دہشت گردی کے مقابلے کے نام پر شہری حقوق پامال کر دیئے اور انسانی تاریخ میں سب سے بڑی جاسوسی کی ۔
اس کے باوجود سرکاری اعداد و شمار کے مطابق گیارہ ستمبر کے دہشت گردانہ واقعات کے بعد کے برسوں میں دہشت گردانہ کارروائیوں میں مارے جانے والوں کی تعداد ان واقعات سے پہلے کے برسوں کی نسبت بہت زیادہ ہے۔ گیارہ ستمبر کے واقعات سے قبل دنیا کے بعض خاص علاقوں خصوصا مغربی اور جنوبی ایشیا میں محدود پیمانے پر دہشت گردانہ کارروائیاں ہوتی تھیں لیکن ان واقعات کے بعد دہشت گردی ایک بین الاقوامی مسئلے میں تبدیل ہوگئی اور اس نے مغربی یورپ اور امریکہ سمیت ساری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ بعض عالمی طاقتیں چونکہ القاعدہ اور داعش جیسے دہشت گرد گروہوں کے سلسلے میں دوہری پالیسی پر عمل پیرا ہیں اس لئے اس بات کا امکان پایا جاتا ہے کہ دہشت گردی مزید پھیلے گی اور دنیا ایک خطرناک مقام میں تبدیل ہوجائے گی۔