ایران اور روس کی باہمی تعلقات میں توسیع پر تاکید
ایران اور روس گوناگوں صلاحیتوں کے حامل ہیں اور دونوں ممالک کے حکام اس بات کے قائل ہیں کہ باہمی تعلقات میں مزید توسیع کی جاسکتی ہے۔
اسلامی جمہوریہ ایران کے وزیر خارجہ محمد جواد ظریف نے بدھ کے دن سوچی شہر میں روسی صدر ولادیمیر پوتن کے ساتھ ملاقات کے بعد نامہ نگاروں سے کہا کہ ان کے دورۂ سوچی اور روسی صدر کے ساتھ ملاقات میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ مشترکہ جامع ایکشن پلان پر دوبارہ مذاکرات نہیں کئے جاسکتے ہیں، یہ ایک ہمہ گیر بین الاقوامی معاہدہ ہے اور سارے فریقوں کو اس کی پابندی کرنی چاہئے۔
محمد جواد ظریف نے صراحت کے ساتھ کہا کہ شام میں قیام امن کے سلسلے میں ایران اور روس کے درمیان بہت اچھا تعاون پایا جاتا ہے اور ہم کو امید ہےکہ قزاقستان کے دارالحکومت آستانہ میں شام میں قیام امن سے متعلق ہونے والے مذاکرات میں اس ملک میں قیام امن اور سیاسی عمل شروع کرنے کے سلسلے میں مزید کامیابی حاصل ہوگی۔ حالیہ برسوں کے دوران ایران اور روس کے باہمی تعلقات زیادہ تر ایران کے ایٹمی معاملے کے حل پر مرکوز رہے لیکن مشترکہ جامع ایکشن پلان پر عملدرآمد کے بعد سے دونوں ممالک کے سیاسی اور اقتصادی تعلقات کا جائزہ لینےسے پتہ چلتا ہے کہ ایران اور روس کے حکام باہمی تعلقات کی سطح بلند کرنے کے لئے پرعزم ہیں۔
روس کے امور کے ماہر اور یوریشیا اسٹڈیز گروپ کے ڈائریکٹر ڈاکٹر محمود شوری کا کہنا ہے کہ حالیہ تین برسوں کے دوران ایران اور روس کے تعلقات کی جو بنیادیں رکھی گئی ہیں ان کے مدنظر اگر ملک کے اندر بعض مواقع پیدا کئے جائیں تو مستقبل میں دونوں ممالک کے درمیان مزید مستحکم اور زیادہ سنجیدہ تعلقات قائم ہوں گے۔
ایران کے بارے میں روس کا زاویۂ نگاہ خصوصا ولادیمیر پوتن کے دور میں یہ زاویۂ نگاہ اور ایران کے ساتھ باہمی تعاون میں ولادیمیر پوتن کی دلچسپی اس بات کا سبب بنی ہے کہ روس اپنی خارجہ پالیسی میں ایران کے ساتھ تعلقات پر خاص توجہ دے۔ ماسکو ایک اہم ملک کے طور پر دو طرفہ تعلقات اور اسٹریٹیجک تعاون کے لئے ایران کو اہمیت دیتا ہے۔ ایران اور روس کے صدور کے ایک دوسرے کے ملک کے دوروں اور رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای سے روسی صدر ولادیمیر پوتن کی ملاقات سے اس بات کی نشاندہی ہوتی ہے کہ فریقین باہمی تعلقات کو بلند ترین سطح پر لے جانے کے سلسلے میں پرعزم ہیں۔
روسی صدر ولادیمیر پوتن نے گزشتہ مارچ میں ماسکو میں اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر حسن روحانی سے ملاقات میں ایران کو ایک اچھا ہمسایہ، مستحکم پارٹنر اور قابل اعتماد ملک قرار دیا تھا۔ شام کے سلسلے میں ایران اور روس کے باہمی تعاون کی وجہ سے دونوں ملکوں کے تعلقات ایک نئےمرحلے میں داخل ہوگئے ہیں۔ دونوں ممالک کے حکام آپس میں مشاورت میں مصروف ہیں اور دونوں ممالک کے حکام کے ایک دوسرے کے ملک کے دوروں میں تیزی پیدا ہوئی ہے۔ تہران اور ماسکو نے سیاسی میدان میں عملی طور پر ثابت کر دیا ہے کہ وہ دہشت گردی اور انتہا پسندی کے مقابلے اور علاقائی بحرانوں کے حل سمیت علاقائی اور بین الاقوامی مسائل میں دو طرفہ تعلقات میں توسیع کے خواہاں ہیں۔
چند طرفہ اسٹریٹیجک اقتصادی تعاون کے سلسلے میں بھی شمال و جنوب کوریڈور کو عملی جامہ پہنائے جانے سے ٹرانزٹ کے سلسلے میں ایران اور روس کا مقام بڑھ گیا ہے۔
مجموعی طور پر کہا جاسکتا ہے کہ علاقائی، بین الاقوامی تعاون اور دو طرفہ تعلقات میں توسیع کے سلسلے میں ایران اور روس کے لئے اچھے مواقع پائے جاتے ہیں اور دونوں ممالک ان مواقع سے بہتر طور فائدہ اٹھانے کی تاکید کرتے ہیں۔