بارزانی کی علیحدگی پسندگی کے مقابلے میں عراقیوں کا اتحاد
عراق کے کردستان علاقے کے سربراہ مسعود بارزانی مسلسل علیحدگی پسندی کا راگ الاپ رہے ہیں لیکن ان کے مقابلے میں عراق کی سیاسی جماعتوں کے اتحاد میں اضافہ ہوگیا ہے۔
مسعود بارزانی نے تازہ ترین قدم اٹھاتے ہوئے عراق کے علاقے کردستان کی علیحدگی کے بارے میں ریفرینڈم کے خلاف بقول ان کے الحشد الشعبی کے خطرے کا مقابلہ کرنے کے لئے پیشمرگہ فورس اور پی کے کے کے افراد کو شمالی عراق میں واقع کرکوک کے علاقے میں روانہ کر دیا ہے۔ سات جون کو مسعود بارزانی نے اعلان کیا تھا کہ پچیس ستمبر کو عراق سے کردستان کے علاقے کی علیحدگی کے بارے میں ریفرینڈم کرایا جائے گا۔
پچیس ستمبر کی تاریخ تک اب صرف گیارہ دن باقی بچے ہیں اور مسعود بارزانی مسلسل جدائی کی بات کر رہے ہیں۔ عراقی حکومت اور سیاسی جماعتوں کے رویئے سے اس بات کی نشاندہی ہوتی ہے کہ علیحدگی کا ڈھنڈورا پیٹنا مسعود بارزانی اور عراقی کردستان علاقے کے لئے اچھے نتائج کا سبب نہیں بنے گا کیونکہ کردستان کو عراق سے الگ کرنے کا ڈھنڈورا پیٹے جانے کے بعد عراقیوں میں اتحاد پیدا ہوگیا ہے۔
مختلف شخصیات اور اداروں نے اب تک کردستان کو عراق سے الگ کرنے سے متعلق ریفرینڈم کے انعقاد کی مخالفت کی ہے اور ان کے علاوہ اب عراقی پارلیمنٹ، مجلس اعلائے اسلامی، صلاح الدین کی صوبائی کونسل اور عراقی پارلیمنٹ میں قبائل کے دھڑے نے گزشتہ دو دنوں کے دوران یعنی بارہ اور تیرہ ستمبر کو اعلامئے جاری کر کے اس علیحدگی پسندی اور بحران پیدا کرنے کی شدید الفاظ میں نہ صرف مخالفت کی بلکہ اسے ایک نیا فتنہ قرار دیا جس سے حتی عراق کے کردستان علاقے پر شدید ضرب لگے گی۔
عراق کی قومی سیاسی جماعتوں کے مقابلے میں مسعود بارزانی نے ایک نئی چال چلتے ہوئے پیشمرگہ فورس اور پی کےکے کے افراد کو صوبۂ کرکوک روانہ کر دیا ہے اور یوں انہوں نے کردستان کی علیحدگی سے متعلق ریفرینڈم کو فوجی رنگ بھی دے دیا ہے۔ عراق کی تنظیم بدر اور بعض سیاسی شخصیات نے اس اقدام کے خلاف اپنا ردعمل ظاہر کرتے ہوئے اسے فوجی کشیدگی پیدا کرنے کی کوشش سے تعبیر کیا ہے اور کہا ہے کہ اس کے منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ مسعود بارزانی نے ایسی حالت میں صوبۂ کرکوک میں ملیشیا بھیجی ہے کہ جب کردستان کے اندر بھی علیحدگی سے متعلق ریفرینڈم کے خلاف اٹھنے والی آواز کو سختی سے کچل رہے ہیں۔
برطانیہ سے شائع ہونے والے اخبار مڈل ایسٹ نے عراق کے کردستان علاقے کی علیحدگی سے متعلق ریفرینڈم کے خلاف مہم چلانے والے شاسوار عبدالواحد کے حوالے سے لکھا ہے کہ عراق سے کرستان کی جدائی سے متعلق ریفرینڈم کے خلاف واضح موقف کا اعلان کرنے کی وجہ سے ان پر دباؤ ڈالا جا رہا ہے اور ان کو موت کی دھمکی بھی دی گئی ہے۔
ایسا نظر آتا ہے کہ مسعود بارزانی نے ابھی تک عراق سے کردستان کے علاقے کی جدائی کے منفی نتائج کو باور نہیں کیا ہے اور انہوں نے گویا عقلیت پر تجربے کو ترجیح دی ہے۔ اخبار البناء کے صحافی حمیدی العبداللہ نے مسعود بارزانی کے منصوبے کا جائزہ لیتے ہوئے لکھا ہے کہ اگر ریفرینڈم کی بنیاد پر کردستان کو عراق سے الگ کر بھی دیا جائے تب بھی کردستان کی حکومت اپنے ہاتھ میں لینے والے حکام کو بہت سی اقتصادی اور سیکورٹی مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔
الغرض پچیس ستمبر نزدیک ہے اور مسعود بارزانی کی علیحدگی پسندی کے مقابلے میں عراق کی سیاسی جماعتوں کے بڑھتے ہوئے اتحاد سے اس حقیقت کی عکاسی ہوتی ہے کہ سیاسی ہٹ دھرمی کے نتیجے میں عراق اور کردستان کو ایک نئے بحران کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے حتی عراق کے سیاسی سیٹ اپ میں کردوں کی موجودہ پوزیشن کمزور ہوسکتی ہے۔