Sep ۱۵, ۲۰۱۷ ۱۹:۲۵ Asia/Tehran
  • ایران کے سلسلے میں امریکہ کی بوکھلاہٹ

امریکی حکومت نے ایران کے خلاف جدید پابندیاں عائد کرنے کے ساتھ ہی اسلامی جمہوریہ ایران کے خلاف ایٹمی پابندیوں کو معلق رکھنے کی مدت مزید ایک سو بیس روز تک بڑھا دی ہے-

 امریکہ کی وزارت خزانہ نے اعلان کیا ہے کہ واشنگٹن نے بعض ایرانی اور غیر ایرانی افراد اور کمپنیوں کو، سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کی حمایت کرنے اور امریکی بینکوں پر سائبر حملے میں ملوث ہونے کی بنا پر اپنی اقتصادی پابندیوں کی فہرست میں شامل کرلیا ہے-

 امریکی محکمہ خارجہ کی ترجمان ہیدر نوئرٹ نے کہا ہے کہ امریکہ کی جانب سے ایران کے سلسلے میں ایک جامع پالیسی اپنانے کا عمل جاری ہے- انہوں نے مزید کہا کہ ایران مخالف جوہری پابندیوں کی معطلی کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ امریکہ اور ٹرمپ انتظامیہ کی ایران مخالف پالیسی میں تبدیلی آئی ہو بلکہ اس اقدام کا مقصد ایران کو اپنے عزائم سے باز رکھنا ہے- واضح رہے کہ ٹرمپ انتظامیہ نے گزشتہ روز اسلامی جمہوریہ ایران اور پاسداران انقلاب اسلامی سے منسلک 18 شخصیات اور اداروں بشمول غیرملکی کمپنیوں پر پابندیاں لگادی ہیں- اس اقدام کے ساتھ ہی ایک طرف، امریکہ کی جانب سے عائد کی جانے والی یکطرفہ پابندیوں کی لسٹ میں ایرانی شخصیات اور افراد کی تعداد میں اضافہ ہوگا تو دوسری جانب امریکہ اس بات کا پابند ہوگا کہ مشترکہ جامع ایکشن پلان سے موسوم ایٹمی معاہدے کے تعلق سے اپنے وعدوں کی پابندی کرے -

گذشتہ مہینوں کے دوران امریکی حکومت نے ایٹمی معاہدے کے دائرے میں اپنے وعدوں کے سلسلے میں متضاد رویہ اپنا رکھا ہے- واشنگٹن کے حکام منجملہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ، اور اقوام متحدہ میں امریکی نمائندہ نیکی ہیلی نے ایران کے توسط سے ایٹمی معاہدے کے روح کی خلاف ورزی کا متعدد بار الزام عائد کیا ہے- لیکن ساتھ ہی امریکی حکومت نے ایران کے خلاف جدید پابندیاں عائد کرنے کے ساتھ ہی اسلامی جمہوریہ ایران کے خلاف ایٹمی پابندیوں کو معلق رکھنے کی مدت مزید ایک سو بیس روزتک بڑھا دی ہے-

اس مسئلے سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ ایران اور گروپ پانچ جمع ایک کے درمیان ایٹمی معاہدے پر عملدرآمد کے دو سال بعد اور اسلامی جمہوریہ ایران کی جانب سے ایٹمی معاہدے کے تعلق سے تمام وعدوں کی پابندی کئے جانے کی یقین دہانی کرائے جانے کے باوجود، امریکہ ابھی بھی گذشتہ برسوں کے دوران ہونے والے ایک اہم ترین اور تاریخ ساز معاہدے کے بارے میں کسی نتیجے تک نہیں پہنچ سکا ہے-  اس بوکھلاہٹ اور حیرانی کی وجہ بھی امریکہ کےاندر، سیاسی طاقتوں کے درمیان پائی جانے والی رقابت ہے-

ایک طرف تو امریکہ کے بعض سیاستداں اور ماہرین اس بات کے مدعی ہیں کہ علاقائی اور میزائیلی سرگرمیوں جیسے مسائل میں نظرثانی کے لئے اسلامی جمہوریہ ایران کو مجبور کرنے کی امریکی توقعات پوری نہیں ہوسکی ہیں اسی لئے واشنگٹن کو چاہئے کہ وہ عالمی احتجاجات اور غم و غصے کو نظر انداز کرتے ہوئے اس ایٹمی معاہدے سے نکل جائے- ساتھ ہی یہ کہ انتخابی سرگرمیوں کے دوران  اور اس کے بعد بھی ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے ایٹمی معاہدے کے خلاف زہر افشانی نے، امریکی حکومت کو اس مسئلے میں دشوار حالات سے دوچار کردیا ہے- 

دوسری جانب پہلے گروپ کی بہ نسبت ایک بڑا گروپ امریکہ میں پایا جاتا ہے جس کا خیال ہے کہ جوہری توانائی کی عالمی ایجنسی نے بارہا ایران کی جانب سے ایٹمی معاہدے کی مکمل پابندی کی تصدیق کی ہے ایسے میں یہ ثابت کرنا کہ ایران نے ایٹمی معاہدے کی خلاف ورزی کی ہے یا اس کی پابندی نہیں کی ہے ، ایک ناممکن امر ہے- ساتھ ہی یہ کہ یورپی ملکوں، روس ، چین اور اقوام متحدہ کی جانب سے ایران کے ساتھ ایٹمی سمجھوتہ جاری رکھنے کی ٹھوس حمایت کے سبب، امریکی حکومت کو سیاسی گوشہ نشینی کے خطرے کا سامنا ہے-

اس بناء پر یہ گروپ ایٹمی معاہدے سے غیر مربوط مسائل کے سلسلے میں ایران پر تنقیدیں کرنے کے ساتھ ہی، واشنگٹن سے اس معاہدے کی پابندی جاری رکھنے کا مطالبہ کر رہا ہے - اس صورتحال کے پیش نظر ٹرمپ حکومت نے دوسرے گروپ کی رضایت حاصل کرنے کے لئے ایران کے خلاف ایٹمی پابندیوں کی مدت میں ایک بار پھر توسیع کردی ہے اور پہلے گروپ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے بعض دیگر ایرانی شخصیات اور ایرانی کمپنیوں پر پابندیاں عائد کردی ہیں، جس سے امریکی بوکھلاہٹ سب پر واضح اور عیاں ہوجاتی ہے-           

 

ٹیگس