یمن کی مستعفی حکومت اس ملک کی تقسیم کے درپے
یمن کی مستعفی حکومت کے وزیر اعظم احمد بن دغر نے جمعے کو یمن کے بحران کے حل کے سلسلے میں کہا ہے کہ یمن کو چھ حصوں میں تقسیم کرنے اور فیڈرل نظام حکومت کی تشکیل کے ذریعے ہی ملک کو بحران سے نکالا جا سکتا ہے۔
احمد بن دغر نے اسی طرح اعتراف کیا ہے کہ یمن میں فیڈرل نظام حکومت کی تشکیل کا منصوبہ یمن کے سابق صدر عبد ربہ منصور ہادی کے دور صدارت میں اور یمن کے قومی مذاکرات کانفرنس کے شرکاء کے توسط سے تقریبا تین سال قبل تیار کیا گیا تھا۔ یمن کے قومی مذاکرات کانفرنس سے وابستہ علاقوں کے تعین کی کمیٹی، کہ جو تقریبا تین سال قبل منصور ہادی کی قیادت میں تشکیل پائی تھی، نے باضابطہ طور پر اس ملک کو چھ علاقوں یا اقلیم میں تقسیم کرنے کی منظوری دی تھی- یمن کے مستعفی صدرعبد ربہ منصور ہادی یمن کو بحران سے نکالنے کی راہ حل، اس ملک کو تقسیم کئے جانے میں سمجھ رہے ہیں اور یہ منصوبہ سعودی عرب اور مغربی حکومتوں کی جانب سے پیش کیا گیا ہے تاکہ یمن کے حصے بخرے کردیئے جائیں- یہ ایسے میں ہے کہ عبد ربہ منصور ہادی کی اس تجویز کی، یمن کی انصاراللہ یمن کی جانب سے شدید مخالفت کی گئی ہے۔
سعودی عرب نے یمن کے بارے میں اپنے موقف میں اس ملک کے مستعفی صدر اور حکومت کو قانونی قرار دیتے ہوئے یمنی عوام سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ اپنے مستعفی حکام کی حمایت کریں۔ البتہ توجہ طلب نکتہ یہ ہے کہ اس وقت یمن کے امور میں اقوام متحدہ کے نمائندے جمال بن عمر نے بھی سعودی عرب سے ملتا جلتا موقف اختیار کیا تھا بلکہ وہ حقیقت میں یمن سے متعلق خلیج فارس تعاون کونسل کے منصوبے کو ہی عملی جامہ پہنانے کے درپے تھے۔ یہ ایسی تجویز ہے جس کی بنیاد یمن کو تقسیم کیے جانے پر استوار ہے۔ بعض خبری ذرائع نے بھی کہا تھا کہ جمال بن عمر نے دو ممالک یعنی شمالی یمن اور جنوبی یمن کی تشکیل کا آئیڈیا پیش کیا ہے۔
جمال بن عمر کی تجویز اور یمن کو چھ حصوں میں تقسیم کرنے اور فیڈرل نظام حکومت کی تشکیل پر مبنی منصور ہادی کی تجویز کو ایک ساتھ رکھ کر دیکھا جائے تو یہ ایک ایسا منصوبہ نظر آتا ہے جس کے مختلف حصے کافی عرصہ قبل خلیج فارس تعاون کونسل نے بنا رکھے تھے۔ یمن کی مختلف حصوں میں تقسیم ایک ایسی تجویز ہے جس کو خلیج فارس تعاون کونسل کے اراکین خصوصا سعودی عرب عملی جامہ پہنانے کے درپے ہیں ۔ موجودہ حالات میں یمن کو داخلی مشکلات ، سیاسی بحران ، سماجی کشیدگی اور سیکورٹی کے مسائل کا سامنا ہے ۔ اور سعودی عرب اسی صورتحال سے فائدہ اٹھا کر یمن کے سیاسی مستقبل اور اس کے جغرافیائی نقشے میں تبدیلی سے متعلق اپنے نظریات کو عملی جامہ پہنانے کے درپے ہے۔ سعودی عرب نے یمن پر قبضے اور یا اس ملک کے بیشتر علاقوں خاص طور پر متنازعہ علاقوں کو اپنی زمین میں ضم کرنے کو ہمیشہ سے اپنے ایجنڈے میں قرار دے رکھا ہے۔
سعودی عرب کو ہمیشہ اپنے پڑوس میں ایک متحد یمن کی موجودگی پر تشویش رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب سے شمالی اور جنوبی یمن متحد ہوئے ہیں ، تب سے سعودی عرب نے یمن کی ارضی سالمیت اور اقتدار اعلی کو نقصان پہنچانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا ہے۔ موجودہ صورتحال میں یمن میں بہت زیادہ کشیدگی پائی جاتی ہے، ان حالات میں سعودی عرب نے بھی اپنے اقدامات میں اضافہ کردیا ہے اور حوثیوں کے ساتھ اپنی دشمنی کی وجہ سے وہ منصور ہادی کے محاذ کو مضبوط بنانے کی کوشش کر رہا ہے۔ البتہ اس کے بارے میں انصاراللہ نے شدت کے ساتھ خبردار کیاہے اور یمن کے عوام سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ غیرملکیوں کو اپنے ملک کے داخلی امور میں مداخلت اور سابق اور مستعفی حکومت کے باقی ماندہ عناصر کو اس ملک کے نئے انقلاب کے ثمرات کی لوٹ مار کی اجازت نہ دیں۔
واضح رہے کہ سعودی عرب، یمن میں مستعفی صدر منصور ہادی کو دوبارہ اقتدار میں لانے کے لئے چھبیس مارچ دوہزار پندرہ سے یمنی عوام کے خلاف شدید حملے کر رہا ہے اور اب تک وسیع پیمانے پر اس ملک کی بنیادی تنصیبات تباہ ہوچکی ہیں جبکہ لاکھوں افراد شہید و زخمی اور بے گھر ہوئے ہیں۔