کردستان کی علیحدگی کے تعلق سے ریفرینڈم کی مختلف سطح پر مخالفتوں میں اضافہ
کردستان کے علاقے کے سربراہ مسعود بارزانی ایسی حالت میں عراق سے کردستان کی علیحدگی کے لئے ریفرینڈم کرائے جانے پر بدستور مصر ہیں کہ اس ریفرنڈم کے حوالے سے قومی، علاقائی اور بین الاقوامی سطحوں پر مخالفتوں میں اضافہ ہوگیا ہے اور حتی کردستان کے علاقے کی سطح پر بھی مخالفت ہو رہی ہے-
کردستان کے علاقے کی سپریم ریفرینڈم کونسل نے گذشتہ روز سترہ ستمبر کو مسعود بارزانی کی سربراہی میں ایک اجلاس تشکیل دیا اور اس میں ایک بیان جاری کرنے کے ساتھ ہی اعلان کیا کہ ریفرینڈم معینہ تاریخ میں ہی کرایا جائے گا- یہ ایسی حالت میں ہے کہ اس ریفرینڈم کے تعلق سے مخالفتوں میں نہ صرف اضافہ ہوا ہے بلکہ خطرے کی حد تک مخالفتیں بڑھ گئی ہیں-
یہ ایسے میں ہے کہ قومی سطح پر عراق کے کرد صدر فواد معصوم نے کہ جن پر عراقی پارلیمنٹ نے ، ریفرینڈم کے بارے میں واضح موقف نہ ہونے کی بناء پر سخت اعتراض کیا تھا، گذشتہ روز نہ صرف یہ کہ واضح موقف اپناتے ہوئے ریفرینڈم کے مخالفین کے اجتماع میں شامل ہوئے بلکہ اسے بڑے خطرات کے حامل سیاسی بحران سے تعبیر کیا ہے- فواد معصوم نے بغداد اور اربیل کی حکومتوں کے درمیان مذاکرات کا مطالبہ کیا ہے اور کہا ہے کہ اس وقت ان کے ملک کو ایک سیاسی بحران کا سامنا ہے کہ جس میں شدت آنے کے ساتھ ہی، سیاسی عمل اور قومی مصلحتیں بڑے خطرے سے دوچار ہوجائیں گی - در ایں اثنا عراق کے نائب صدر نوری مالکی نے کہا ہے کہ ہم اس بات کی اجازت نہیں دیں گے کہ دوسرا اسرائیل شمالی عراق میں وجود میں آئے- عراقی وزیر اعظم نے بھی کردستان میں فوجی کارروائی کے لئے اپنی آمادگی کی خبر دیتے ہوئے کہا ہے کہ کردستان کے علاقے کو تقسیم کرنے سے متعلق ریفرینڈم ، آگ کے ساتھ کھیلنے کے مترادف ہوگا -
عراق کی قومی سلامتی نے بھی کردستان کے علاقے کی علیحدگی کی مخالفت کرتے ہوئے اسے اس ملک کے آئین کے منافی اور قومی سلامتی اور اتحاد کے لئے خطرہ قرار دیا ہے- عراقی پارلیمنٹ کے ممبران نے بھی کردستان کے علاقے کی خودمختاری کے لئے ریفرینڈم کی مخالفت میں ووٹنگ کرتے ہوئے عراقی وزیراعظم کو کردستان کی مقامی انتظامیہ کے حکام سے براہ راست مذاکرات کا پابند بنایا ہے تاکہ اس مسئلے کا حل نکالا جاسکے- عراقی ممبران پارلمینٹ نے منگل کو وزیراعظم حیدرالعبادی سے اپیل کی کہ وہ عراق کی ارضی سالمیت کے تحفظ اور اسے تقسیم سے بچانے کے لئے تمام ضروری تدابیراختیار کریں- ان مواقف سے اس امر کی غمازی ہوتی ہے کہ عراق میں قومی سطح پر، سبھی کردستان کی علیحدگی کے مخالف ہیں اور عراق کے تمام سیاسی گروہ اور شخصیات اس ملک کی ارضی سالمیت پر تاکید کر رہے ہیں-
واضح رہے کہ گذشتہ سات جون کو عراقی کردستان کی بعض پارٹیوں نے کردستان کی مقامی انتظامیہ کے سربراہ مسعود بارزانی کی موجودگی میں ایک اجلاس میں پچیس ستمبردوہزار سترہ کو عراق سے کردستان کی علیحدگی کے بارے میں ریفرنڈم کرانے کا فیصلہ کیا تھا- عراقی حکومت، ملک کی مختلف سیاسی پارٹیاں، علاقے اور دنیا کے دیگر ممالک عراق سے کردستان کے علیحدہ ہونے کے خلاف ہیں-
مسعود بارزانی نے تازہ ترین قدم اٹھاتے ہوئے عراق کے علاقے کردستان کی علیحدگی کے بارے میں ریفرینڈم کے خلاف بقول ان کے الحشد الشعبی کے خطرے کا مقابلہ کرنے کے لئے پیشمرگہ فورس اور پی کے کے کے افراد کو شمالی عراق میں واقع کرکوک کے علاقے میں روانہ کر دیا ہے۔
پچیس ستمبر کی تاریخ تک اب صرف کچھ دن باقی بچے ہیں اور مسعود بارزانی مسلسل جدائی کی بات کر رہے ہیں۔ عراقی حکومت اور سیاسی جماعتوں کے رویئے سے اس بات کی نشاندہی ہوتی ہے کہ علیحدگی کا ڈھنڈورا پیٹنا، مسعود بارزانی اور عراقی کردستان کے علاقے کے لئے اچھے نتائج کا سبب نہیں بنے گا کیونکہ کردستان کو عراق سے الگ کرنے کا ڈھنڈورا پیٹے جانے کے بعد عراقیوں میں اتحاد پیدا ہوگیا ہے۔
عراق کی قومی سیاسی جماعتوں کے مقابلے میں مسعود بارزانی نے ایک نئی چال چلتے ہوئے پیشمرگہ فورس اور پی کے کے کے افراد کو صوبۂ کرکوک روانہ کر دیا ہے اور یوں انہوں نے کردستان کی علیحدگی سے متعلق ریفرینڈم کو فوجی رنگ بھی دے دیا ہے۔ عراق کی تنظیم بدر اور بعض سیاسی شخصیات نے اس اقدام کے خلاف اپنا ردعمل ظاہر کرتے ہوئے اسے فوجی کشیدگی پیدا کرنے کی کوشش سے تعبیر کیا ہے اور کہا ہے کہ اس کے منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ مسعود بارزانی نے ایسی حالت میں صوبۂ کرکوک میں ملیشیا بھیجی ہے کہ جب کردستان کے اندر بھی علیحدگی سے متعلق ریفرینڈم کے خلاف اٹھنے والی آواز کو سختی سے کچلا جا رہا ہے-
غرض یہ کہ پچیس ستمبر نزدیک ہے اور مسعود بارزانی کی علیحدگی پسندی کے مقابلے میں عراق کی سیاسی جماعتوں کے بڑھتے ہوئے اتحاد سے اس حقیقت کی عکاسی ہوتی ہے کہ سیاسی ہٹ دھرمی کے نتیجے میں عراق اور کردستان کو ایک نئے بحران کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے حتی عراق کے سیاسی سیٹ اپ میں کردوں کی موجودہ پوزیشن کمزور ہوسکتی ہے۔
اگرچہ مسعود بارزانی اور کردستان کی مقامی حکومت ، عراق سے علیحدگی کے ریفرینڈم کے انعقاد پرزور دے رہی ہے لیکن روز افزوں مخالفتیں اور سفارتی کوششیں اس امر کی غماز ہیں کہ ریفرینڈم کے نہ ہونے کا امکان بڑھتا جا رہاہے- اسی سلسلے میں عراق کے سرکردہ سیاسی اور مذہبی رہنما اور مجلس اعلائے اسلامی کے سربراہ سید عمار حکیم نے کہا ہے ہمیں امید ہے کہ آئندہ بہتر گھنٹوں میں اٹھائے جانے والے سیاسی اقدامات ، سب کے لئے اہم نتائج کے حامل ہوں گے جو سب سے خطرات کو دور کردیں گے-