Oct ۰۳, ۲۰۱۷ ۱۷:۴۰ Asia/Tehran
  • دہشت گردی، ناوابستہ تحریک کے نقطہ نگاہ سے

اقوام متحدہ میں اسلامی جمہوریہ ایران کے سفیر اور مستقل نمائندے غلام علی خوشرو نے پیر کو ناوابستہ تحریک کی نمائندگی میں دہشت گردی کے بارے میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی قانونی کمیٹی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے دہشت گردی کے سلسلے میں بڑھتی ہوئی تشویش کی جانب اشارہ کرتے ہوئے تاکید کی کہ ناوابستہ تحریک، دہشت گردی کے مقابلے کے بہانے اپنے اراکین کے خلاف ہر طرح کی دھمکی کو مسترد اور اس بات پر تاکید کرتی ہے کہ سامراج اور غاصبوں کے خلاف جائز جد و جہد کے حق اور دہشت گردی کو یکساں نہیں سمجھنا چاہئے-

غلام علی خوشرو نے اسی طرح کہا کہ دہشت گردی سے مقابلے کے بہانے ناوابستہ تحریک کے ممبر ممالک کے خلاف کسی بھی قسم کی دھمکی یا ان کے خلاف طاقت کا استعمال قابل مذمت ہے اور یہ تحریک دہشت گردی سے موثر مقابلے کی ضرورت پر تاکید کرتی ہے- انہوں نے کہا کہ تمام حکومتوں کو چاہئے کہ دہشت گردی سے مقابلے کے لئے اپنی قانونی اور بین الاقوامی ذمہ داریوں پر عمل کریں اور اپنی ذمہ داری سمجھتے ہوئے سرحدوں کو کنٹرول کریں اور دہشت گردوں کو گرفتار کرکے انہیں حوالے کئے جانے کے ساتھ ہی ان کے ٹھکانوں کو نیست و نابود کردیں - اور دیگر ملکوں میں دہشت گردوں کی کسی بھی قسم کی حمایت سے اجتناب کریں-

بعض امریکی حکام کی جانب سے داعش جیسے دہشت گردوں کو وجود میں لانے اور ان کی حمایت کا اعتراف، اسی حقیقت کی تائید ہے- امریکی حکام کو چاہئے کہ وہ  ایران کے خلاف بے بنیاد الزامات عائد کرنے، دہشت گردی سے سیاسی فائدہ اٹھانے اور ماضی کی شکست خوردہ پالیسیاں جاری رکھنے کے بجائے علاقے میں اپنے بعض اتحادی ملکوں کو ، تکفیری اور دہشت گرد گروہوں کی مالی ، فکری اور اسلحہ جاتی حمایت بند کرنے کا پابند بنائیں- 

امریکہ کے دوہرے معیار کی پالیسی کے بے شمار نمونے دنیا کے مختلف ملکوں میں آپ دیکھ سکتے ہیں - چنانچہ مغربی ممالک اور ان میں سرفہرست امریکہ ایک طرف تو سعودی عرب اور اسرائیل جیسے دہشت گردی کے حامی ملکوں کو انواع و اقسام کے ممنوعہ ہتھیار فروخت کررہے ہیں تو دوسری طرف ان ہتھیاروں کو  شام ، یمن ، عراق اور افغانستان میں نہتے بچوں اور عورتوں کے خلاف استعمال کیا جا رہا ہے اور یہ مغربی ملکوں اور امریکہ کے دوہرے رویے کے واضح نمونے ہیں-  

 دہشت گردی کے بارے میں اقوام متحدہ میں اسلامی جمہوریہ ایران کے سفیر اور مستقل نمائندے کے بیانات، انحرافی تحریکوں اور دہشت گردی کے خلاف جنگ سے ناجائز فائدہ اٹھانے کی جانب اشارہ ہیں- اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ ہرطرح کی دہشت گردی ایک برا اور قابل مذمت اقدام ہے اور اس کے خلاف جنگ بھی ایک ضروری امر ہے لیکن دہشت گردی کے خلاف جنگ کا عمل، دوہرے رویے کے باعث اپنے اصلی مدار سے خارج ہوگیا ہے- اس انحرافی تحریک کا نمونہ، ملت فلسطین کے خلاف غاصب صیہونی حکومت کے جرائم ہیں- اسرائیلی حکومت، فلسطینیوں کی استقامت اور ان کی جد و جہد کو دہشت گردانہ اقدام قرار دیتی ہے لیکن اپنے جرائم کو دہشت گردوں کے مقابلے میں دفاع کا نام دیتی ہے حالانکہ فلسطین کی مظلوم قوم اپنے حقوق کے دفاع کے لئے غاصب صیہونی حکومت کے خلاف جد و جہد کر رہی ہے-

دہشت گردی کے بارے میں جنرل اسمبلی کی قانونی کمیٹی میں اقوام متحدہ میں ایران کے مستقل نمائندے کے بیانات سے اس نکتے کی یاد دہانی ہوتی ہے کہ دہشت گردی کے مسئلے کو ان موضوعات سے بالاتر ہو کر دیکھنا چاہئے جنھیں مغرب اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کے جھوٹے دعو یدار پیش کر رہے ہیں-

حقیقت یہ ہے کہ موجودہ حالات میں بالخصوص مغربی ایشیاء کے علاقے میں دہشت گردانہ کارروائیوں میں اضافے کے سلسلے میں سنگین تشویش پائی جاتی ہے اور اس تشویش کا کچھ حصہ بیرونی دہشت گردوں اور مغرب کے آلہ کاروں کی وجہ سے ہے، جو دہشت گردانہ کارروائیوں کو بڑھاوا دینے کے لئے متعلقہ ممالک کا سفر کرتے ہیں- اس موضوع نے اس وقت بین الاقوامی رخ اختیار کر لیا ہے- یورپی ممالک کے بہت سے حکام ، حتی امریکہ نے اعتراف کیا ہے کہ ان کے اقدامات دنیا میں دہشت گردی پھیلنے کا باعث ہیں-

مسئلہ یہ ہے کہ اگر یہ ممالک، بین الاقوامی قانون کے تناظر میں اپنے معاہدوں پر توجہ دیتے تو موجودہ سطح پر دہشت گردانہ اقدامات کی زمین ہموار نہ ہوتی- دہشت گردوں کو اچھے ، برے اور اعتدال پسند گروہوں میں تقسیم کرنا اور انھیں سیاسی و مالی مدد دینا، ان کی ٹریننگ کے لئے بجٹ فراہم کرنا حتی انھیں سیاسی پناہ دینا بین الاقوامی معاہدوں کی خلاف ورزی کی مثالیں ہیں-

دہشت گردی کے خلاف موثر اور بھرپور جنگ کے لئے تمام حکومتوں کو چاہئے کہ وہ اپنی قانونی اور بین الاقوامی ذمہ داریوں پر عمل کریں اور دہشت گردی کے ذمہ دار افراد کے تعاقب اور ان کی حوالگی سمیت لازمی اقدامات انجام دیں- یہ وہ مطالبہ ہے جس پر اقوام متحدہ میں ایران کے مستقل نمائندے نے ناوابستہ تحریک کی نمائندگی میں تاکید کی اور تمام حکومتوں سے مطالبہ کیا کہ وہ ملک کے اندر یا بیرون ملک ، دہشت گردوں کو ہرطرح کی سیاسی ، مالی اور اسلحہ جاتی مدد فراہم کرنے اور انھیں ٹریننگ دینے سے اجتناب کریں-

 

ٹیگس