مشترکہ جامع ایکشن پلان کے حوالے سے امریکی صدر کا بے بنیاد دعوی
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ ہر بہانے اور طریقے سے ایران کے ایٹمی معاہدے کو ختم کرنے کا ماحول تیار کرتے رہتے ہیں۔ انہوں نے ایک بار پھر دعوی کیا ہے کہ ایران نے مشترکہ جامع ایکشن پلان یعنی ایٹمی معاہدے پر عملدرآمد نہیں کیا ہے۔
ٹرمپ نے جمعرات کے دن وائٹ ہاؤس میں امریکی فوجی کمانڈروں سے ملاقات کے موقع پر کہا کہ وہ اس بارے میں اپنے فیصلے کا بہت جلد اعلان کرنے والے ہیں کہ وہ مشترکہ جامع ایکشن پلان کی تائید کرتے ہیں یا نہیں۔ امریکی صدر نے دعوی کیا کہ ہمیں ایران کو ایٹمی ہتھیاروں تک رسائی کی اجازت نہیں دینی چاہئے۔ اس کے بعد ٹرمپ نے دہشت گرد گروہوں کو وجود میں لانے سے متعلق امریکہ کی خفیہ ایجنیسوں کےکردار اور خطے میں دہشت گردی کے حامیوں کی پشت پناہی پر توجہ دیئےبغیر یہ دعوی بھی کیا کہ ایران دہشت گردی کی حمایت کرتا ہے اور وہ مشرق وسطی میں خلفشار، قتل عام اور تشدد پھیلا رہا ہے اسی وجہ سے ایٹمی میدان میں ایران کی ترقی و پیشرفت کے آگے بند باندھنے کی ضرورت ہے۔
حقیقت کے منافی اور دشمنی سے بھر پور ٹرمپ کے ان بیانات سے اس بات کی نشاندہی ہوتی ہے کہ صیہونی حکومت کے ساتھ ان کو بھی خطے کے ایک طاقتور اور موثر ملک کے طور پر ایران ایک آنکھ نہیں بھاتا ہے۔ ٹرمپ کے یہ بیانات اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں ان کی حالیہ تقریر سے بہت زیادہ ملتے جلتے ہیں۔ امریکی صدر کے ان بیانات کی وجہ امریکہ کا طاقتور ہونا نہیں ہے بلکہ ان بیانات سے اس بات کا پتہ چلتا ہے کہ ایران کی طاقت کے مظاہرے کے نتیجے میں امریکہ بوکھلاہٹ کا شکار ہوچکا ہے۔ رہبر انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں ٹرمپ کی تقریر کے خلاف اپنا ردعمل ظاہر کرتے ہوئے اس بات پر تاکید کی ہےکہ اس تقریر کی بنیاد طاقت نہیں ہے بلکہ اس کی بنیاد غصہ، بوکھلاہٹ اور حماقت ہے کیونکہ اسلامی جمہوریہ ایران کی موثر موجودگی کی وجہ سے مغربی ایشیا کے علاقے میں امریکیوں کی برسہا برس کی سازشیں ناکام ہوگئی ہیں اس لئے وہ غم و غصے اور تکلیف میں مبتلا ہیں۔
ٹرمپ کے حالیہ بیانات کا جائزہ مشترکہ جامع ایکشن پلان کے حتمی فیصلے کی راہ ہموار کرنے کے تناظر میں لیا جاسکتا ہے۔ دنیا والے اس بات کو بہت اچھی طرح جانتے ہیں کہ ایران حقیقی معنوں میں دہشت گردی کا مقابلہ کرنے والے محاذ میں شامل ہے اور وہ خطے میں پائیدار امن کے قیام کے لئے امریکہ اور صیہونی حکومت کے حمایت یافتہ دہشت گردوں کا مقابلہ کر رہا ہے۔ ٹرمپ کی ایران مخالف لفاظی نیتن یاہو کی لفاظی سے ملتی جلتی ہے اور یہ لفاظی اس حقیقت کو تبدیل نہیں کرسکتی ہے کہ امریکہ اور اسرائیل دہشت گردی کے اصلی حامی ہیں اور خطے میں تشدد اور خلفشار بھی وہی پھیلا رہے ہیں۔
ایران کی جانب سے مشترکہ جامع ایکشن پلان کی پابندی کئے جانے سے متعلق امریکی کانگریس کو اس ملک کی وزارت خارجہ کی تیسری رپورٹ پیش کئے جانے کے موقع پر ٹرمپ جو ماحول تیار کر رہے ہیں اس سے اس بات کی نشاندہی ہوتی ہے کہ اس رپورٹ میں اس بات کی تصدیق نہیں کی جائے گی کہ ایران نے مشترکہ جامع ایکشن پلان کی پابندی کی ہے۔امریکی وزارت خارجہ کی تیسری رپورٹ پندرہ اکتوبر کو جاری کی جائے گی۔ دریں اثناء امریکی حکومت میں مشترکہ جامع ایکشن پلان سے متعلق ٹرمپ کے نئے فیصلے کے خلاف آوازیں اٹھ رہی ہیں۔
روئٹرز نے اپنی رپورٹ میں لکھا ہے کہ امریکی حکومت کے ایک اعلی عہدیدار نے اپنا نام ظاہر نہ کرنےکی شرط پر جمعرات کے دن کہا کہ اس بات کی پیشین گوئی کی جارہی ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ عنقریب اعلان کریں گے کہ وہ مشترکہ جامع ایکشن پلان کی حمایت نہیں کرتے ہیں۔ یہ ایسا اقدام ہے جس سے ایران کا ایٹمی معاہدہ ختم ہوسکتا ہے۔
امریکہ سے شائع ہونے والے اخبار واشنگٹن پوسٹ نے بھی ٹرمپ کی جانب سے مشترکہ جامع ایکشن پلان کی حمایت نہ کئے جانے کے بارے میں لکھا ہےکہ اگر ایسا کیا گیا تو امریکی کانگریس کے پاس ایران کے خلاف پابندی بحال کرنے سے متعلق فیصلہ کرنے کے لئے ساٹھ دن تک مہلت ہوگی۔ مشترکہ جامع ایکشن پلان کے خلاف امریکی صدر جو اقدامات انجام دے رہے ہیں خود امریکہ کے اندر ان کے مخالفین بھی موجود ہیں۔ امریکی وزیر جنگ جیمز میٹس نے تاکید کے ساتھ کہا ہے کہ ایران کے ایٹمی معاہدے کا تحفظ امریکہ کے قومی مفادات کے حق میں ہے۔ امریکی آرمی کے چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف جوزف ڈنفورڈ نے بھی مشترکہ جامع ایکشن پلان کی حمایت اور ایران کی جانب سے اس کی پابندی کئے جانے کی تصدیق کی ہے۔ اس کے علاوہ ڈیموکریٹک پارٹی سے تعلق رکھنے والی سینیٹر الیزبتھ وارن (Elizabeth Warren) نے جمعرات کے دن ایک بیان میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو ایران کے ایٹمی معاہدے کو ختم کرنے کے منفی اثرات کے بارے میں خبردار کیا۔
ڈونلڈ ٹرمپ ایران پر مزید پابندیاں لگانے کے مقصد سے موجودہ ایٹمی معاہدے کو ختم کرکے ازسرنو مذاکرات کرنا چاہتے ہیں جبکہ ایٹمی معاہدے کے دوسرے فریق اور یورپی یونین اس کے خلاف ہیں۔