داعش سے مقابلے میں کامیابی کا ٹرمپ کا بے بنیاد دعوی
امریکی صدر نے دعوی کیا ہے کہ ان کا ملک دہشت گردی سے مقابلے خاص طور پر پر داعش دہشت گرد گروہ سے مقابلے میں فتح یاب ہوا ہے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکہ کے سینئر فوجی عہدیداروں کے ساتھ ملاقات میں کہا کہ ہم اپنی دنیا کو دہشت گردی اور دہشت گرد گروہوں سے جہاں تک ممکن ہوسکے گا پاک کریں گے۔ گذشتہ ایک برس کے دوران داعش کو پے درپے ملنے والی شکستوں پر ایک نظر ڈالنے سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ یہ دہشت گرد گروہ ، کم از کم عراق اور شام میں نابودی کے دہانے پر ہے- اور یہ شکستیں زیادہ ترایران ، روس ، شام اور عراق کے اتحاد سے حاصل ہوئی ہیں کہ جنہوں نے داعش کو بھاری جانی اور مالی نقصان پہنچایا اور عراق کے موصل اور شام کے حلب جیسے شہروں کو داعش کے چنگل سے آزاد کرالیا- البتہ داعش دہشت گرد گروہ کی حمایت جاری رکھنے میں اس گروہ کے بعض سابق حامیوں کے رویے میں تبدیلی بھی ان کامیابیوں کے حصول میں موثر رہی ہے- مثال کے طور پر ترکی اور قطر اور نے اپنے مواقف میں نظر ثانی کرکے ، اور داعش کو سیاسی اور مالی حمایت سے محروم کرکےاس دہشت گرد گروہ کی نابودی کا امکان فراہم کیا ہے۔
اس میں دو رائے نہیں کہ دہشت گردی کا مقابلہ کرنے میں ایران، روس، عراق اور شام کے درمیان تعاون و ہم آہنگی نے اہم کردار ادا کیا ہے اور شام و عراق میں دہشت گردوں کی شکست و ناکامی، خاص طور سے حلب سے دہشت گردوں کا صفایا اور دہشت گردوں کے قبضے سے موصل کو آزاد کرائے جانے کی کارروائی بھی، مذکورہ تعاون کے ثمرات کا ہی حصہ ہے۔ دہشت گردی کے مقابلے میں یہ کامیابیاں ایسی حالت میں حاصل ہوئی ہیں کہ داعش مخالف امریکی اتحاد نے لاکھ ڈھنڈورہ پیٹنے کے باوجود نہ صرف یہ کہ علاقے سے دہشت گردی کا خاتمہ کرنے میں کوئی مدد نہیں کی ہے بلکہ عملی طور پر وہ داعش دہشت گرد گروہ کے خلاف مہم اور اس گروہ کا قلع قمع کئے جانے کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ نیز علاقے خاص طور سے عراق و شام میں دہشت گردوں کے لئے محفوظ ذریعہ بھی بنا ہوا ہے۔
امریکہ اور اس کے مغربی و عربی اتحادیوں کی جانب سے داعش دہشت گرد گروہ کے خلاف مہم کا ایسی حالت میں دعوی کیا جاتا ہے کہ ان ہی ممالک نے، اس دہشت گرد گروہ کی تشکیل، اس کی تربیت اور اسے مسلح کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ بیرون ملک حکومت شام مخالف گروہوں کی امریکہ کی جانب سے وسیع مالی مدد، عراق و شام میں مسلح دہشت گرد گروہوں کے لئے امریکی ہتھیاروں کی فراہمی اور دہشت گردی کی، اچھے اور برے میں تقسیم داعش دہشت گرد گروہ کے خلاف مہم سے متعلق امریکی دعوے سے ہرگز مطابقت نہیں رکھتی۔
حقیقت یہ ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکی پالیسیوں کے اعلان و عمل میں پایا جانے والا تضاد، علاقے میں دہشت گردی کی لعنت کے شدّت اختیار کر جانے کا باعث بنا ہے۔ دہشت گردی کے خلاف مہم میں امریکہ کی دو رخی پالیسیوں اور اس ملک کی سرکردگی میں نام نہاد داعش مخالف اتحاد نے داعش دہشت گرد گروہ کا عرصہ حیات تنگ کرنے کے بجائے مزید وسیع کر دیا ہے۔ موجودہ قرائن و شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ امریکہ کا اصل مقصد، داعش کے منصوبے کو آگے بڑھانا ہے اس لئے کہ داعش کے منصوبے کا، شمالی افریقہ اور مغربی ایشیاء میں امریکی مفادات کے تحفظ سے براہ راست تعلق ہے۔ دہشت گردی کے تعلق سے امریکہ کے دوہرے معیار سے علاقائی و عالمی سلامتی کی ضمانت فراہم نہیں ہو سکتی۔ داعش کے بارے میں امریکہ کی نمائشی پالیسیوں سے عالمی سلامتی کو کوئی مدد نہیں مل سکتی۔
دہشت گردی کے خلاف مہم میں عالمی تعاون، بدامنی و تشدد اور انتہا پسندی کا مقابلہ کئے جانے کا واحد ذریعہ ہے ورنہ دوسری صورت میں عالمی سطح پر دہشت گردوں کے اقدامات کے لئے کسی بھی سرحد کا کوئی تصور نہیں کیا جاسکتا۔