Oct ۱۶, ۲۰۱۷ ۱۶:۱۱ Asia/Tehran
  • امریکی حکومت کے موقف میں تبدیلی کے آثار

مشترکہ جامع ایکشن پلان کے بارے میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی متنازعہ تقریر کو اڑتالیس گھنٹوں سے زیادہ کا وقت گزرنے کے بعد وائٹ ہاؤس کے حکام اس بات پر تاکید کرنے کے لئے کوشاں ہیں کہ ان کا ملک ایران کے ساتھ کئے جانے والے ایٹمی معاہدے کا پابند ہے۔

امریکی وزیر خارجہ ریکس ٹیلرسن اور اقوام متحدہ میں امریکی نمائندہ نیکی ہیلی نے الگ الگ ٹی وی پروگراموں میں اس بات پر تاکید کی ہے کہ امریکہ ایران کے ساتھ ایٹمی معاہدہ کرنے والوں میں بدستور شامل ہے۔ ریکس ٹیلرسن نے مشترکہ جامع ایکشن پلان کی حمایت نہ کرنے پر مبنی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے بیانات کو ایک داخلی مسئلہ قرار دیا اور کہا کہ یہ بیانات مشترکہ جامع ایکشن پلان سے امریکہ کے خارج ہونے کے مترادف نہیں ہیں۔

نیکی ہیلی نے بھی، کہ جو ٹرمپ کابینہ کے دوسرے اراکین کی نسبت مشترکہ جامع ایکشن  پلان کے سلسلے میں زیادہ سخت موقف رکھتی ہیں، کہا ہے کہ فی الحال امریکہ مشترکہ جامع ایکشن پلان میں موجود ہے۔

امریکی صدر ٹرمپ کی گزشتہ جمعے کے دن کی اشتعال انگیز اور توہین آمیز تقریر کی نسبت ان بیانات کو نرم قرار دیا جارہا ہے۔ البتہ ٹرمپ حکومت کے تمام اراکین نے گزشتہ دو دنوں کے دوران ایران کے میزائل پروگرام اور اس کی علاقائی سرگرمیوں کو بنیاد بنا کر ایران پر مختلف طرح کے الزامات عائد کئے اور مشترکہ جامع ایکشن پلان پر دستخط کرنے والے فریقوں خصوصا ایران پر دباؤ بڑھانے کی کوشش کی ہے۔ لیکن اس کے باوجود امریکی صدر کے بیانات کے ساتھ ان کے انداز گفتگو کا موازنہ کرنے سے واضح ہوجاتا ہے کہ واشنگٹن نے مشترکہ جامع ایکشن پلان سے خارج ہونے کی دھمکی سے پسپائی اختیار کر لی ہے۔

عالمی برادری کی جانب سے وسیع پیمانے پر ٹرمپ کے مشترکہ جامع ایکشن  پلان مخالف بیانات کے خلاف رد عمل ظاہر کیا جانا اور اسلامی جمہوریہ ایران کی جانب سے ایٹمی معاہدے کے بارے میں دوبارہ مذاکرات کا مسترد کیا جانا ٹرمپ کے سابقہ موقف سے وائٹ ہاؤس کی پسپائی میں موثر واقع ہوا ہے۔ امریکہ کے سوا ایٹمی معاہدے پر دستخط کرنے والے تمام ممالک نے مشترکہ جامع ایکشن پلان کو جاری رکھنے پر تاکید کی ہے اور اعلان کیا ہے کہ وہ امریکہ کو یکطرفہ طور پر اس معاہدے کو سبوتاژ کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔

یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کی سربراہ فیڈریکا موگرینی نے دو ٹوک الفاظ میں کہا ہے کہ امریکی صدر دوسرے موضوعات میں بے تحاشا طاقت رکھنے کے باوجود مشترکہ جامع ایکشن پلان کو سبوتاژ کرنے کی طاقت نہیں رکھتے ہیں۔

امریکہ کے اندر بھی ٹرمپ کے بیانات پر ہونے والے اعتراضات میں شدت پیدا ہوگئی ہے۔ امریکہ کے سابق عہدیداروں ، ڈیموکریٹس اور ری پبلیکن پارٹی سے تعلق رکھنے والے بعض اراکین کانگریس نے خبردار کیا ہے کہ مشترکہ جامع ایکشن پلان سے امریکہ کے خارج ہوجانے سے امریکہ الگ تھلگ ہوجائے گا اور اس کے قومی مفادات پر ضرب لگے گی۔ ذرائع ابلاغ نے یہ بھی کہا ہے کہ امریکہ کے وزیر خارجہ، وزیر دفاع اور قومی سلامتی کے مشیر سمیت ٹرمپ حکومت کے بعض اراکین مشترکہ جامع ایکشن پلان سے امریکہ کے خارج ہونے کے مخالف ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اندرونی اور بیرونی وسیع مخالفت کے پیش نظر وائٹ ہاؤس کے حکام اب عالمی برادری کو اس بات کی یقین دہانی کرانے کے لئے کوشاں ہیں کہ واشنگٹن مشترکہ جامع ایکشن پلان کی پابندی کرتا رہے گا۔ اگرچہ اس یقین دہانی سے ٹرمپ کی متنازعہ تقریر کے بعد پیدا ہونے والا ماحول کچھ بہتر ہوا ہے لیکن اس کے باوجود اس تقریر کے بعد عالمی برادری چند طرفہ اور بین الاقوامی معاہدوں سے متعلق امریکی حکام کے وعدوں پر طویل عرصے تک اعتماد نہیں کرے گی۔

 

ٹیگس