اسرائیل اور امریکی پالیسیاں علاقائی عدم استحکام کا سبب
بدھ کے دن اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں مشرق وسطی اور فلسطین کی صورتحال کے جائزے کے لئے متعلق اجلاس بلایا گیا جو امریکہ اور اسرائیل کی جانب سےایران کے خلاف لگائے جانے والے بے بنیاد الزامات کے مقام میں تبدیل ہوگیا۔ البتہ اقوام متحدہ میں ایران کے نمائندے نے ان تمام الزامات کے جواب دیئے اور اسرائیل اور امریکی پالیسیوں کو خطے میں بدامنی اور عدم استحکام کا باعث قرار دیا۔
مشرق وسطی کی صورتحال سے متعلق اجلاس میں امریکہ اور صیہونی حکومت کے نمائندوں نے مشترکہ جامع ایکشن پلان کے مسئلے کی جانب اشارہ کیا حالانکہ مشترکہ جامع ایکشن پلان کا اس اجلاس سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ اقوام متحدہ میں امریکہ کی نمائندہ نیکی ہیلی نے اس اجلاس میں مشترکہ جامع ایکشن پلان کو ایک ہتھکنڈے کے طور پر استعمال کرتے ہوئے اس بات کا دعوی کیا کہ ایران کے اقدامات خطے میں بدامنی کا سبب ہیں۔ نیکی ہیلی نے یہ دعوی بھی کیا کہ ایسا نہیں ہو سکتا ہےکہ مشرق وسطی کے بارے میں بات کی جائے لیکن ایران کے اقدامات کی جانب اشارہ نہ کیا جائے۔ اقوام متحدہ میں صیہونی حکومت کے نمائندے ڈینی ڈینن (Danny Danon) نے بھی دعوی کیا کہ ایران نے دہشت گردی کی حمایت کے ذریعے عالمی برادری کے لئے خطرات پیدا کر دیئے ہیں۔
ان دعووں کے جواب میں اقوام متحدہ میں اسلامی جمہوریہ ایران کے نمائندے غلام علی خوشرو نے اس بات کو بیان کرتے ہوئے، کہ صیہونی حکومت نے اب تک اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی اڑسٹھ قراردادوں کو نظر انداز کیا ہے، کہا کہ اسرائیل کی تاریخ کا آغاز ہی فلسطینیوں کی سرزمین پر قبضے سے ہوا ہے جو دوسرے ممالک کے خلاف جارحیت کے ساتھ جاری ہے۔ غلام علی خوشرو نے امریکہ کی جانب سے صیہونی حکومت کی ہمہ گیر حمایت کی جانب اشارہ کیا اور کہا کہ اسرائیل نے امریکہ کی حمایت سے فلسطینیوں پر بے پناہ مظالم ڈھائے ہیں اور فلسطینی سرزمینوں پر قبضہ کیا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ مغربی ایشیا یعنی مشرق وسطی کے موجودہ بحران کے اسباب کو سنہ انیس سو اڑتالیس میں تسلط پسند طاقتوں کی حمایت کے ساتھ ناجائز صیہونی حکومت کی تشکیل میں ڈھونڈنا چاہئے۔ اس زمانے میں برطانوی سازش کے ساتھ اسرائیلی حکومت قائم ہوئی تھی اور اس کے بعد امریکہ کی مختلف حکومتوں نے اسرائیل کی ہمہ گیر حمایت کو اپنے ایجنڈے میں شامل کر لیا تھا۔ یہ حمایت مادی اور اسلحہ جاتی امداد کی صورت میں مسلسل جاری ہے۔
پس انیس سو اڑتالیس میں مشرق وسطی میں بدامنی کا بیج بو دیا گیا تھا۔ اسرائیل کی بنیاد ہی جنگ پسندی اور قبضے پر استوار ہے اور یہ حکومت علاقائی اور عالمی امن و سلامتی کے لئے حقیقی خطرہ ہے۔ ان حالات میں ایک ایسی حکومت کہ جو امن پر یقین نہیں رکھتی ہے مغرب خصوصا امریکہ کی حمایت کی وجہ سےمختلف طرح کے روایتی اور غیر روایتی ہتھیاروں سے لیس ہوچکی ہے۔ آج صیہونی حکومت کے ایٹمی وار ہیڈز اور اس کی جنگ پسندی اور قبضے کی عادت ممالک کی سیکورٹی کے لئے اصلی خطرہ شمار ہوتی ہے۔
اس کے علاوہ اسرائیل کی جانب سے شام میں دہشت گردوں کی حمایت اور سعودی و صیہونی حکومتوں اور امریکہ کے حمایت یافتہ دہشت گردوں کی مدد کے مقصد سے اس حکومت کی جانب سے شام پر کئے جانے والے متعدد حملے مغربی ایشیا کے اسٹریٹیجک علاقے میں امریکہ، صیہونی حکومت اور سعودی عرب کی پیدا کردہ بدامنی کا ایک اور مصداق ہے۔ مقبوضہ جولان میں زخمی دہشت گردوں کے علاج، ان کی اسلحہ جاتی مدد، شام میں دہشت گردوں کے سرغنوں کی رہنمائی اور امریکی ہیلی کاپٹروں کے ذریعے ان کی منتقلی سے ثابت ہوجاتا ہے کہ خطے میں امریکہ اور اسرائیل دہشت گردوں کی حمایت کر رہے ہیں۔
اسی حقیقت کے پیش نظر اقوام متحدہ میں امریکہ اور اسرائیل کے نمائندے ہر اجلاس میں ایران کو نشانہ بنانے کی کوشش کرتے ہیں حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ ایران نے حقیقی معنوں میں دہشت گردی کا مقابلہ کرکے مغربی ایشیا کےعلاقے خصوصا شام میں امریکی اور صیہونی عزائم کو ناکام بنایا ہے۔ امریکہ اور اسرائیل اس وجہ سے غم و غصے میں مبتلا ہیں کہ ایران نے خطے میں ان کے طویل المیعاد اہداف کو خاک میں ملا دیا ہے اور مشرق وسطی کی صورتحال سے متعلق بلائے جانے والے اجلاس میں ان دونوں حکومتوں کے الزامات اسی حقیقت کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔