ٹرمپ کی مشرق وسطی اسٹریٹیجی میں عراق کی پوزیشن
امریکہ کی موجودہ حکومت کی اسٹریٹیجی میں، مغربی ایشیا میں عراق خاص اہمیت کا حامل ہوگیا ہے-
اسی سبب سے امریکی وزیر خارجہ ریکس ٹیلرسن نے بھی ریاض میں ایک اجلاس ترتیب دیا کہ جس میں عراقی وزیر اعظم حیدر العبادی اور سعودی بادشاہ ملک سلمان نے بھی شرکت کی - یہ اجلاس عراق کے سلسلے میں امریکی حکومت کے نئے رویئے کا آغاز ہے-
البتہ دوعشروں قبل سے ہی ، امریکہ کی مشرق وسطی کی پالیسی میں عراق توجہ کا مرکز رہا ہے- اس عرصے میں امریکہ نے عراق پر دو مرتبہ فوجی حملے کئے ہیں اور ایک بار اس ملک پر فوجی قبضہ بھی کیا ہے-اسی طرح امریکہ نے عراق میں اپنی موجودگی جاری رکھنے اور علاقے کی صورتحال کو کشیدہ کرنے کے لئے انتہا پسند اور تشدد پسند گروہوں کو اس ملک میں مضبوط کیا جس کے نتیجے میں آخرکار داعش جیسا خوفناک اور خونریز گروہ وجود میں آیا- اس وقت واشنگٹن میں نئی حکومت کے برسراقتدار آنے کے ساتھ ہی امریکی حکام ، عراق اور سعودی عرب کے اتحاد سے علاقے میں ایران مخالف نیا اتحاد قائم کرنے کے درپے ہیں- امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی حکومت کے حکام کے نقطہ نظر سے طاقتور ایران مغربی ایشیاء میں امریکی نظام کے لئے سب سے بڑا خطرہ ہے اور اس کے لئے وہ تمام تر سیاسی ، اقتصادی گنجائشوں کو بروئے کار لاسکتے اور حتی ضرورت پڑنے کی صورت میں فوجی اور سیکورٹی اقدامات بھی ایران کے خلاف انجام دے سکتے ہیں- اس درمیان امریکیوں کی یہ کوشش ہے کہ اپنے ایران مخالف اقدامات کی ذمہ داری سعودی عرب کے کاندھوں پر ڈالیں اور علاقے کے عرب ملکوں کو ریاض کے ارد گرد جمع کردیں-
عراق میں امریکہ اور سعودی عرب کی مداخلت اور اس ملک میں دہشت گردوں کی حمایت کا مسئلہ عراقی عوام کے ذہنوں میں محفوظ ہے ، اور کچھ عرصہ قبل عراق کے دارالحکومت بغداد میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ایران کی تشخیص مصلحت نظام کونسل کے سیکریٹری، محسن رضائی نے کہا تھا کہ امریکہ عراق اور شام میں مکمل امن ہوتا نہیں دیکھ سکتا۔ انہوں نے کہا تھا کہ امریکہ ہر اس عمل کا مخالف ہے جس کے نتیجے میں عراق اور شام میں امن قائم ہوسکتا ہو۔ ایران کی تشخیص مصلحت نظام کونسل کے سیکریٹری نے کہا کہ اسلامی جمہوریہ ایران دہشت گردی کے خلاف جنگ میں عراق کے ساتھ کھڑا ہے اور اس ملک کی تعمیر نو کے عمل میں عراق کو تنہا نہیں چھوڑے گا۔
اسلامی جمہوریہ ایران ، مداخلت کرنے والی طاقتوں سے کسی طرح کا خوف کئے بغیر، علاقے میں دہشت گردی کے خاتمے اور امن و سلامتی کے قیام کے لئے تمام ترکوششیں بروئے کار لا رہا ہے اور اس سلسلے میں اسے کسی کی اجازت کی ضرورت نہیں ہے- ایران کبھی بھی ان ملکوں کے مکر و فریب میں نہیں آئے گا کہ جو خود دہشت گردوں کے حامی ہیں اور انہوں نے نام نہاد اتحاد بنا رکھا ہے- کیوں کہ علاقے کے حقائق کے پیش نظر یہ بات واضح ہے کہ یہی ممالک منجملہ سعودی عرب ، دہشت گردی سے مقابلے کی راہ میں اہم ترین رکاوٹ ہیں -
ریاض کے لئے اہم مسئلہ یہ ہے کہ اسے اپنی ساکھ متزلزل نظر آرہی ہے اور اب اسے شام میں اپنی پوزیشن کے کمزور ہونے کا یقین ہوچکا ہے- حققیت میں علاقے کو سعودی عرب جیسے ملک کا سامنا ہے کہ جو دوسروں کے ملکوں کے امور میں مداخلت کر رہا ہے اور دہشت گردی کو فروغ دے رہا ہے- اس نے علاقے کی معاشی ترقی کو مسائل و مشکلات سے دوچار کر دیا ہے- اس لئے سعودی عرب میں دہشت گردی سے مقابلے کا کوئی محرک نہیں پایا جاتا ، جس طرح سے امریکہ نے کبھی بھی دہشت گردی کو ختم کرنے کے بارے میں نہیں سوچا ہے بلکہ وہ داعش جیسے گروہ کی حمایت کرکے دیگر دہشت گرد گروہوں کو وجود میں لانے میں مدد کر رہا ہے- بہرحال مغربی ایشیا میں امن و امان کا قیام علاقے کے تمام ملکوں کی مشارکت اور اتحاد سے ممکن ہوگا نہ کہ تفرقہ انگیز پالیسیوں سے-