شام میں دہشت گردی مخالف جدوجہد کے حقیقی محاذ کی گفتگو
اسلامی جمہوریہ ایران کی مسلح افواج کے سربراہ نے شام کے دارالحکومت دمشق میں اس ملک کے صدر کے ساتھ ملاقات اور گفتگو کی ہے- ساتھ ہی ایران اور روس کے وزرائے دفاع نے ایک ٹیلفیونی گفتگو میں دہشت گردی سے مقابلے کے سلسلے میں بات چیت کی ہے۔ ایران اور روس نے حزب اللہ لبنان کے ہمراہ، علاقے میں دہشت گردی سے مقابلے کا حقیقی محاذ تشکیل دیا ہے-
ایران کی مسلح افواج کے سربراہ میجر جنرل محمد باقری نے دمشق میں شام کے صدر بشار اسد سے ملاقات کی اور حالیہ دنوں میں دہشت گردوں کے مقابلے میں شام کی فوج اور مسلح افواج کی کامیابی پر مبارکباد دی- انہوں نے کہا کہ دہشت گردی کا شام کی سرزمین سے جلد از جلد خاتمہ ہونا چاہئے- ایران کی مسلح افواج کے سربراہ نے اسلامی جمہوریہ ایران کی جانب سے شام کی حکومت اور قوم کی حمایت جاری رہنے پر تاکید کی - شام کے صدر بشار اسد نے بھی اس ملاقات میں دہشت گردی سے مقابلے کے لئے، رہبر انقلاب اسلامی ، ایران کی حکومت اور عوام کی ہمہ جانبہ حمایت کی قدردانی کی-
دوسری جانب ایران کے وزیر دفاع جنرل امیر حاتمی نے جمعرات کو روس کے وزیر دفاع سرگئی شائگو کے ساتھ ٹیلیفونی گفتگو کی جس میں انہوں نے کہا کہ ایران کے خلاف امریکی دباؤ میں شدت اور ان کے غم وغصے کی وجہ، شام میں دہشت گردی سے مقابلے کے لئے ایران اور روس کے درمیان جاری تعاون ہے کہ جس نے امریکہ کے خطرناک منصوبوں پر پانی پھیر دیا ہے-
جنرل باقری کا دورہ دمشق موجودہ حالات میں ایک خاص اہمیت کا حامل ہے جس سے اس امر کی نشاندہی ہوتی ہے کہ ایران دہشت گردی سے مقابلے میں بہت سنجیدہ ہے اور وہ شام کی موجودہ قانونی حکومت کی حمایت بھی کرتا ہے - ایران اور شام کے درمیان اسٹریٹیجک تعاون نے دہشت گردوں خاص طور پر داعش کے عناصر کو اس ملک میں نابودی کے دہانے پر پہنچا دیا ہے اور اسی تناظر میں روس اور حزب اللہ لبنان نے بھی اپنا کردار ادا کیا ہے- بالفاظ دیگر ایران ، شام روس اور لبنان کی اسلامی مزاحمت ، اس وقت دہشت گردی مخالف جد وجہد کے حقیقی محاذ پر ڈٹی ہوئے ہیں - اور اس تعاون کے نتیجے میں شام میں داعش کی خود ساختہ خلافت اور اس سے قبل شمالی عراق کے شہر موصل میں بھی داعش کی خلافت کا شیرازہ بکھر چکا ہے- آج شام کے بحران کو چھ سال سے زیادہ کا عرصہ گذر جانے کے باوجود دہشت گرد عناصر اس ملک کے جنگی محاذوں سے فرار کر رہے ہیں اور انہیں شکست و ناکامی کا سامنا ہے-
دہشت گردی مخالف جدوجہد کے حقیقی محاذ نے، پہلے شام کے اسٹریٹیجک شہر دیرو الزور کو آزاد کرایا اور پھر گذشتہ منگل کو شامی فوج اور استقامتی محاذ نے صوبہ رقہ کے شہر الرقہ کو بھی جسے دہشت گرد گروہ داعش نے شام میں اپنا مرکز بنا رکھا تھا، آزاد کرا لیا ۔ شام مخالفین سے وابستہ ہیومن رائٹس آبزرویٹری گروپ نے بھی الرقہ شہر کی مکمل آزادی کی تصدیق کر دی ہے۔ پیر کے روز شام کی ڈیموکریٹ فورس کے جوانوں نے شہر کے نوے فیصد علاقوں کو آزاد کرا لیا تھا۔ رقہ، شام کا پہلا ایسا بڑا شہر تھا کہ جس پر دو ہزار چودہ میں داعش دہشت گرد گروہ نے قبضہ کر لیا تھا اور پھر داعش گروہ نے اسے اپنے ہیڈکوارٹر میں تبدیل کر دیا تھا۔
دہشت گردی مخالف جدوجہد کے حقیقی محاذ کے مد مقابل ایک اور محاذ ہے جس میں امریکہ ، سعودی عرب، اور اسرائیل شامل ہیں اور اس محاذ نے شام کے بحران کے آغاز کے وقت سے ہی، جو کچھ بھی اس کے اختیار میں تھا اسے بروئے کار لایا، لیکن مزاحمتی محاذ کے مقابلے میں اس اتحاد کو شکست کا سامنا کرنا پڑا-
امریکہ نے داعش مخالف اتحاد کی تشکیل کے ساتھ ہی عملی طور پر اس تکفیری گروہ کو منظم اور ڈکٹیٹ کرنے کی ذمہ داری اپنے ایجنڈے میں شامل کر رکھی ہے اور جہاں کہیں بھی داعش کو مزاحمتی محاذ سے شکست ملی ہے وہاں امریکہ اور اسرائیل نے ان دہشت گردوں کی مدد وحمایت کی ہے- اسی سلسلے میں سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کی بری یونٹ کے ڈپٹی کمانڈر بریگیڈیر عبداللہ عراقی نے گیارہ اکتوبر کو کہا کہ ایسے وقت میں کہ جب شام اور عراق میں دہشت گرد عناصر اپنے ہتھیار ڈال رہے تھے امریکی فوج نے ان کے لئےہتھیاروں اور غذائی اشیاء کی کھیپ گراکر ان کی مدد کی- غرض یہ کہ ایران ، شام اور روس کا اسٹریٹیجک تعاون، علاقے اور شام میں دہشت گردی کی بیخ کنی کا ضامن ہے اور شام میں جاری جنگ میں یا سیاسی سطح پر جو تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں وہ اسی تعاون کا روشن افق ہیں- اور جیسا کہ جنرل جعفری نے کہا ہے شام میں دہشت گردی کے مکمل خاتمے تک ایران، شام کی حکومت اور قوم کے شانہ بشانہ کھڑا رہے گا اور ان کی حمایت جاری رکھے گا-