دہشتگردی کے مقابلے کے لئے پاکستان و افغانستان کے درمیان تعاون کی درخواست
پاکستان کی وزارت خارجہ کے ترجمان نے افغانستان میں حالیہ دہشتگردانہ حملوں کی مذمت کرتے ہوئے دہشتگردی کے خلاف جنگ میں کابل حکومت کے ساتھ تعاون کے لئے اسلام آباد کی آمادگی کی خبر دی ہے۔
پاکستان کی وزارت خارجہ کے ترجمان نفیس زکریا نے تاکید کے ساتھ کہا ہے کہ دہشتگردی پاکستان اورافغانستان کا مشترکہ مسئلہ ہے اور دونوں ملکوں کے امن واستحکام کو خطرے میں ڈالے ہوئے ہے اور اس سلسلے میں کوئی چارہ کار تلاش کرنا چاہئے- افغانستان کے صوبہ غور اور کابل میں گذشتہ چند روزقبل ہونے والے دہشتگردانہ دھماکوں کے نتیجے میں سو سے زیادہ افراد شہید اور دسیوں افراد زخمی ہوگئے تھے اور دہشتگرد گروہ داعش و طالبان نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کی تھی- یہ پہلی بار نہیں ہے کہ جب پاکستانی حکام دہشتگردی سے مقابلہ کرنے کے لئے کابل حکومت کے ساتھ تعاون پر آمادگی ظاہرکررہے ہیں تاہم اہم نکتہ یہ ہے کہ حکومت افغانستان کو اس سلسلے میں پاکستانی حکومت کی کارکردگی پر اعتماد نہیں ہے کیونکہ وہ اس طرح کے دعوؤں کو صرف نعرے بازی سمجھتی ہے تاکہ اسلام آباد پر علاقائی و بین الاقوامی دباؤ کسی طرح کم ہوسکے-
افغانستان کے سیاسی و سیکورٹی حلقوں کی نظر میں پاکستان ، افغانستان کے سیکورٹی مسائل کے تئیں دہرا رویہ اختیار کئے ہوئے ہے اور انتہاپسندوں اور بدامنی پیدا کرنے والے عناصر کی حمایت کررہا ہے- اگرچہ حکومت پاکستان اس طرح کے الزامات کو مسترد کرتی ہے تاہم حکومت کابل عملی طور پردہشتگردی سے مقابلے کے لئے پاکستان کے وعدوں پر عمل درآمد کی خواہاں ہے- اس تناظر میں کابل یونیورسٹی کے پروفیسر جعفرکوہستانی کا کہنا ہے کہ حامد کرزئی کے دورحکومت سے لے کر اب تک پاکستان، افغانستان کے سیکورٹی حالات کے سلسلے میں دہرا کھیل کھیل رہا ہے اور اس کے قول و فعل میں تضاد ہے اوراس نے طالبان کی ہمیشہ ہی حمایت کی ہے اور کرے گا- دہشتگردی سے مقابلے کے لئے تعاون کے سلسلے میں حکومت پاکستان اور اس کے وعدوں پر افغان حکومت کی بے اعتمادی کی ایک وجہ یہ ہے کہ اس ملک میں اقتدار کے عناصر، افغانستان میں الگ الگ اہداف رکھتے ہیں- افغانستان کے مسئلے کو پاکستان کی فوج اور ادارہ انٹیلیجنس آئی ایس آئی دیکھتی ہے جبکہ حکومت پاکستان کا افغانستان کے ساتھ سیکورٹی تعاون میں کوئی کردار نہیں ہے- پاکستانی فوج کی بری فوج کے کمانڈر قمرجاوید باجوا نے اپنے حالیہ دورہ افغانستان میں دہشتگردی کے خلاف جنگ میں تعاون کا وعدہ کیا ہے لیکن افغان حکام کی نظرمیں اس ملک میں ہونے والے حالیہ دہشتگردانہ حملوں کا مطلب یہ ہے کہ پاکستانی فوج دہشتگردی کے خلاف جنگ میں سنجیدہ تعاون نہیں کررہی ہے- افغانستان کے سیاسی امور کے ماہر عزیررفیعی کا کہنا ہے کہ پاکستان میں عملی طور پرتین حکومتیں ہیں ۔ فوجی، سیاسی اور مذہبی ۔ سیاسی حکومت افغانستان کے ساتھ سیاسی و اقتصادی تعلقات کی خواہاں ہے لیکن فوجی اور مذہبی حکومتوں نے ہمیشہ ہی دہشتگردوں کی حمایت کرکے افغانستان کو کمزور کرنے کی کوشش کی ہے اور افغانستان میں اپنی نوعیت کی حکومت کی خواہاں ہیں-
بہرحال دہشتگری کی لعنت نے افغانستان اور پاکستان دونوں کی سیکورٹی کو نشانہ بنا رکھا ہے جس کے اقتصادی و سماجی نتائج برآمد ہوں گے- بنا برایں دہشتگردی کا مشترکہ طور پر مقابلہ کرنے کے لئے پہلا قدم کابل اور اسلام آباد کے درمیان بحالی اعتماد ہے تاکہ تمام سیکورٹی و انٹیلیجنس وسائل کے ذریعے دہشتگردی کا مقابلہ کیا جا سکے- افغان حکومت کی نگاہ میں پاکستان کی فوج اور حکومت کو اس سلسلے میں آگے آنا چاہئے اور دہشتگردوں کے خلاف بھرپورکارروائی کرکے ثابت کردینا چاہئے کہ وہ اس سلسلے میں اپنے وعدوں کی پابند ہیں-