روہنگیا مسلمانوں کے تعلق سے بنگلادیش اور میانمار کے درمیان اتفاق رائے
میانمار اور بنگلادیش کے وزائے داخلہ ، جنرل "کیاو سیو " اور " اسد الزماں خان " نے دو مفاہمتی نوٹ پر دستخط کرکے، روہنگیا مسلمانوں کی صورتحال کا جائزہ لینے کے مقصد سے ایک ورکنگ گروپ کی تشکیل اور سرحدی تعاون میں توسیع پر اتفاق کیا ہے-
سن 2012 سے کہ جب سے روہنگیا مسلمانوں کے خلاف خونریز تشدد کا نیا دور شروع ہوا ہے یہ افراد اپنی جان بچانے کے لئے پڑوسی ممالک منجملہ بنگلادیش میں پناہ لئے ہوئے ہیں- میانمار کی حکومت اس دعوے کے ساتھ کہ روہنگیا کے مسلمان، بنگالی مہاجر ہیں نہ صرف ان کو شہری حقوق سے محروم کئے ہوئے ہے بلکہ اس کوشش میں ہے کہ روہنگیا مسلمانوں کو ان کے آباء واجداد کی سرزمین سے بے دخل کرکے ان کو کوچ کرنے پر مجبور کردے- شائع ہونے والی رپورٹوں سے اس امر کی نشاندہی ہوتی ہے کہ چھ لاکھ سے زائد روہنگیا مسلمان بنگلادیش میں پناہ لے چکے ہیں اور وہ کیمپوں میں بدترین حالات میں زندگی گذار رہے ہیں البتہ ان کی صحیح تعداد کے بارے میں اطلاعات دستیاب نہیں ہیں-
میانماری فوج اور اس ملک کے انتہا پسند بدھسٹوں کے وحشیانہ حملوں کے نتیجے میں جسے اقوام متحدہ نے بھی قومی تطہیر سے تعبیر کیا ہے، چھے ہزار سے زائد روہنگیا مسلمان جاں بحق اور آٹھ ہزار سے زائد دیگر زخمی ہو چکے ہیں-
یہ ایسی حالت میں ہے کہ روہنگیا کے مسلمان صوبہ راخین کے اصلی باشندے ہیں کہ جس کا نام ماضی میں آراکان تھا اور تقریبا ساڑھے تین سو سال تک علاقے میں ان کا شاہی نظام بھی تھا- میانمار کی فوجی حکومت نے اسّی کے عشرے میں روہنگیا کے مسلمانوں کو ، دیگر تین قوموں کے ہمراہ ، شہری حقوق سے محروم کردیا- صوبہ راخین کو اقتصادی لحاظ سے اہمیت حاصل ہے اور اسی لئے میانمارکے فوجیوں نے ساٹھ کے عشرے سے ہی زرعی زمینوں اور جائیدادوں پر قبضہ کرنا شروع کردیا تھا- بنگلادیش کی حکومت بھی میانمار کی حکومت کے اس دعوے کو مسترد کرتے ہوئے کہ روہنگیا کے مسلمان بنگالی مہاجر ہیں ان کو، ان کے گھروں اور وطن واپس کئے جانے کی خواہاں ہے-
بنگلادیش کے سیاسی ماہر معین الدین خاں بادل کہتے ہیں
میانمار میں ایک پرامن علاقہ روہنگیا مسلمانوں کی رہائش کے لئے قائم کیا جائے اس کے لئے انہیں علاقائی اور عالمی سطح پر حمایتوں کی ضرورت ہے روہنگیا کی مسلم خواتین جو بنگلادیش فرار کرگئی ہیں ان پرمیانمار کے فوجیوں نے جنسی تشدد کیا ہے- یہ صرف ایک ایذا رسانی نہیں بلکہ نسل کشی ہے اور وہ چاہتے ہیں کہ روہنگیا مسلمانوں کو نابود کردیں-
ایک اہم ترین مسئلہ جو بہت ہی کم بین الاقوامی حلقوں کی توجہ کا باعث بنا ہے وہ مشکلات اور مصائب و آلام ہیں، جو روہنگیائی مسلمانوں کی جانوں کو میانمار سے فرار کے وقت درپیش رہتا ہے - میانمار کے فوجیوں نے صرف اس لئے کہ روہنگیا کے مسلمان پڑوسی ملکوں تک صحیح و سالم نہ پہنچ سکیں اور ان کی تعداد کم ہوجائے، سرحدی علاقوں میں بارودی سرنگ بچھانے کا کام کیا ہے - یہ کام، روہنگیا کی جوان لڑکیوں اور عورتوں کے ساتھ تجاوز کے ساتھ ایک جنگی جرم ہے کہ جس سے عالمی برادری بے توجہ ہے-
بہرصورت اگرچہ بنگلادیش اس کوشش میں ہے کہ روہنگیا مسلمانوں کی وطن واپسی کے لئے میانمار پر دباؤ ڈالے تاہم جب تک کہ میانمار کی حکومت اپنے شہریوں کے حق کو سرکاری طورپر تسلیم نہیں کرے گی روہنگیا مسلمانوں کی ممکنہ میانمار واپسی ، ان مسلمانوں پر میانمار کے فوجیوں کے مظالم تھم جانے کی ضمانت نہیں بن سکتی- اس لئے ایک عالمی ادارہ ہونے کی حیثیت سے اقوام متحدہ ، اسلامی تعاون کی تنظیم اور جنوب مشرقی ایشیائی ممالک کی تنظیم آسیان ، کہ میانمار جس کا رکن ہے، پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے -