Oct ۲۹, ۲۰۱۷ ۱۷:۳۳ Asia/Tehran
  • مسعود بارزانی کے استعفےکا خط، ایک شکست خوردہ کھیل کا انجام

خبری ذرائع کے مطابق عراقی کردستان کے سربراہ مسعود بارزانی نے ایک خط کردستان کی پارلیمنٹ کو ارسال کیا ہے جس کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ انہوں نے اس خط میں اپنے عہدے سے استعفی دینے کی بات کہی ہے۔

عراقی کردستان کی پارلیمنٹ کے ڈپٹی اسپیکر جعفر ایمنکی نے جو پارلیمنٹ کے اجلاسوں کی سربراہی انجام دے رہے ہیں، اس خبر کا اعلان کرتے ہوئے، کردستان 24 ٹی وی چینل، کو بتایا کہ بارزانی کے خط کو، مقامی پارلیمنٹ کے اجلاس میں پڑھ کر سنایا جائے گا- ایمنکی کے بقول مسعود بارزانی کے اختیارات،  عراقی کردستان کے علاقے کی مجریہ ، مقننہ اور عدلیہ کے درمیان تقسیم ہوجائیں گے- بارزانی 2005 سے اب تک عراقی کردستان کے سربراہ کی حیثیت سے اپنے عہدے پر باقی ہیں - وہ پہلی بار 2005 میں کردستان علاقے کی پارلمینٹ کے توسط سے اور دوسری بار 2009 میں عوامی ووٹوں سے اس عہدے کے لئے منتخب ہوئے تھے بارزانی کی سربراہی کا دور، 2013 کے موسم گرما میں ختم ہوچکا تھا لیکن پٹریاٹیک یونین آف کردستان اور کردستان ڈموکریٹک پارٹی نے اس علاقے کی پارلیمنٹ کے اجلاس میں ایک قانون منظور کرکے اس بات پراتفاق کیا کہ علاقے کے سربراہ کے لئے انتخابات اور بنیادی آئین کے ریفرنڈم کو دو سال کے لئے ملتوی کردیا جائے۔

ساتھ ہی یہ بھی طے پایا کہ کردستان کے علاقے کی سربراہی کی مدت میں صرف دوسال کےلئے اضافہ ہو اس کے بعد اس مدت میں اضافہ نہ کیاجائے- اس لحاظ سے کردستان کے علاقے پر مسعود بارزانی کی قیادت 2015 کے بعد سے عملی طور پر غیر قانونی تھی لیکن مسعود بارزانی، عراقی کردستان کے علاقے کے مختلف اداروں میں اثرو رسوخ پیدا کرکے، اس علاقے میں اقتدار پر باقی رہنے کی توجیہ کے درپے تھے اور یہ مسعود بارزانی کی پیدا کردہ فضا تھی اور ان کے پروپگنڈے تھے کہ جس کے باعث 2015 میں ایک غیر معروف اور غیر شائستہ قدم اٹھاتے ہوئے عراقی کردستان کی اعلی عدالتی کونسل نے، علاقے میں مسعود بازانی کی قیادت کی مدت میں توسیع کردی- مختلف ہتھکنڈوں سے عراقی کردستان کے علاقے پر مسعود بارزانی کی حکمرانی  اور اجارہ داری جاری رہنے کی مدت میں توسیع کے سناریو پر، کردی اور عراقی گروہوں اور شخصیات نے سخت ردعمل ظاہر کیا ہے۔

ان تمام تر تنقیدوں کے باوجود مسعود بارزانی نے اپنی دوسالہ غیر قانونی ریاست کی مدت کے اختتام پر نیا ہتھکنڈہ اپنایا اور اپنی سیاسی زندگی کو جاری رکھنے کے لئے ایک غیر سوچا سمجھا ، پرخطر اور غیر قانونی قدم اٹھایا اور عراق سے کردستان کے علاقے کو علیحدہ کرنے کے لئے ریفرنڈم کرا دیا  کہ جس کے نتیجے میں علاقائی اور عالمی سطح پر اس اقدام کی مذمت کی گئی اور اسے آگ سے کھیلنے سے تعبیر کیا گیا- بارزانی کا یہ اقدام، عراقی کردستان کے علاقے میں، عراق کے بنیادی آئین سے تجاوز نیز یکطرفہ اقدامات اور اپنی اجارہ داری قائم رہنے کے مترادف تھا- عراق میں دہشت گرد گروہوں، خاص طور پر داعش کے ساتھ حکومت کی نبرد آزمائی کو بارزانی نے اپنے لیے ایک غنیمت موقع سمجھا کہ جمہوریت اور عوامی حقوق کے نام پر کردستان کی علیحدگی کے لیے پیش رفت کی جائے۔ ان کی خواہش تھی کہ ان علاقوں میں آزادی کے لیے ریفرنڈم کروا کر دنیا کو یہ پیغام دیا جائے کہ کرد عوام ، عراق کی وفاقی حکومت سے علیحدگی چاہتے ہیں۔ ان کی نظر سب سے زیادہ کرکوک پر تھی جو سب سے زیادہ گیس اور تیل پیدا کرنے والا عراقی صوبہ ہے۔

بارزانی نے اس اثنا میں غیر ملکی کمپینوں سے مالا مال گیس اور تیل کی ترسیل کے معاہدے بھی شروع کردیے۔ اس سلسلے میں وفاقی حکومت کے کسی احتجاج پر انھوں نے کان نہیں دھرے۔ وہ سب سے زیادہ تیل اسرائیل کو فراہم کرتے رہے جس کی پائپ لائن ترکی سے گزرتی ہے اور اسرائیل کو سستے داموں تیل فراہم کرتی ہے۔ اسرائیل کے شروع ہی سے بارزانی اور بعض دیگر کرد قبائل سے روابط رہے ہیں۔ مصطفی بارزانی کے ساتھ اسرائیلی قیادت کے روابط دیرینہ تھے جو بعد میں مسعود بارزانی کے ساتھ بھی برقرار رہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسرائیل وہ واحد ملک ہے جس نے 25ستمبر2017کو علیحدگی کے لیے کروائے گئے کردستان کے ریفرنڈم کی حمایت کی۔ کردوں سے اسرائیلی روابط 1960کی دہائی سے قائم ہو گئے تھے۔ 

بہرحال جیسا کہ موصولہ خبروں سے پتہ چلتا ہے کہ مسعود بارزانی اب یکم نومبر کے بعد اپنے عہدے پر باقی نہیں رہیں گے، یہ کہا جاسکتا ہے کہ عراقی کردستان کی علیحدگی کی تحریک ہی دم نہیں توڑ گئی بلکہ گریٹر کردستان کا منصوبہ بھی ضعف اور کمزوری کا شکار ہوچکا ہے۔

ٹیگس