Oct ۲۹, ۲۰۱۷ ۱۷:۳۳ Asia/Tehran
  • ایٹمی ترک اسلحہ کے بارے میں ایران کی مجوزہ قرارداد کی منظوری

ایٹمی ترک اسلحہ کے بارے میں اسلامی جمہوریہ ایران کی مجوزہ قرارداد، امریکہ اور اس کے اتحادی ملکوں کی مخالفت کے باوجود اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی ترک اسلحہ کمیٹی میں منظور کر لی گئی-

ایران کی یہ مجوزہ قرارداد ایک سو بارہ مثبت ووٹوں سے منظور کی گئی ہے-  امریکا، غاصب صیہونی حکومت، یورپی یونین کے رکن ملکوں اور امریکا کے اتحادی چند عرب ملکوں نے اس قرارداد کی مخالفت کی تھی لیکن ناوابستہ  تحریک کے رکن تقریبا سبھی ملکوں نے اس قرارداد کے حق میں ووٹ دیا اور اس طرح یہ قرارداد اکثریتی ووٹوں سے پاس ہو گئی۔ سوال یہ ہے کہ اس قرارداد کی منظوری، کس اہمیت کی حامل ہے؟ اسلامی جمہوریہ ایران کی اس مجوزہ قرار داد میں ایٹمی اسلحہ رکھنے والے ملکوں سے کہا گیا ہے کہ ایٹمی ہتھیاروں کے گودام ختم کرنے کے اپنے وعدوں پر عمل کریں، شفافیت کے اصولوں پر عمل کرتے ہوئے ایٹمی ہتھیاروں کی نابودی کے عمل پر بین الاقوامی نگرانی اور دوبارہ ایٹمی اسلحے کی تیاری کی جانب واپسی کے عدم امکان کو یقینی بنائیں۔  

اسی سلسلے میں اس سے قبل بھی ایٹمی ہتھیاروں کے مخالف ایران سمیت دنیا کے ایک سو بائیس ملکوں کے نمائندوں نے سات جولائی کو اقوام متحدہ کے ہیڈکوارٹر میں منعقدہ ایک کانفرنس میں  ایٹمی ہتھیاروں کی کسی بھی حال میں تیاری ، تجربے، اس کا ڈھیر لگانے نیز اس کے استعمال پر مکمل پابندی پر مبنی ایک معاہدے کے متن کی منظوری دی تھی- اس معاہدے کے حامیوں نے اسے تاریخی کامیابی قرار دیا جبکہ ایٹمی ہتھیار رکھنے والے ملکوں نے اسے غیر حقیقت پسندانہ اقدام سے تعبیر کیا اور کہا کہ یہ معاہدہ ہزاروں ایٹمی وار ہیڈز رکھنے والے ایٹمی ڈپوز میں کمی واقع ہونے پر ذرا بھی اثر انداز نہیں ہوگا۔  

اسٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ  (Stockholm International Peace Research Institute) کی سالانہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ امریکہ پانچ اقسام کے نئے ایٹمی ہتھیار بنانے کے لیے کوشاں ہے۔ سن دو ہزار سولہ کے آغاز سے امریکہ کے پاس سات ہزار ایٹمی وار ہیڈز ہیں۔ ایٹمی ہتھیاروں کے ماہر مارک گوبراد کا اس بارے میں کہنا ہے کہ "دنیا ایٹمی ہتھیاروں  کے جن کو بوتل میں دوبارہ بند کرنے کے سلسلے میں ناکام ہوگئی ہے اور اب بہت سے نئے جن وجود میں آچکے ہیں۔" امریکہ کی جانب سے ایٹمی ہتھیاروں کی جدید کاری کے پیش نظر اس کے حریف بھی جدید ترین ایٹمی ہتھیار بنانے کے درپے ہیں۔ اس سلسلے کا جاری رہنا دنیا کی تباہی کے مترادف ہے۔ اسٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ (Stockholm International Peace Research Institute) کی سالانہ رپورٹ کے مطابق صیہونی حکومت کے پاس بھی تین سو ایٹمی وار ہیڈز موجود ہیں۔

 امریکہ دنیا میں وہ واحد ملک ہے کہ جس نے ایٹمی ہتھیاروں کا نہ صرف استعمال کیا ہے بلکہ اپنی ناجائز اولاد اسرائیل کو ایٹمی ہتھیاروں سے لیس کیا ہے جو اس وقت دنیا خاص طور پر مشرق وسطی کے لیے سنگین خطرہ بنا ہوا ہے۔ ناجائز صیہونی حکومت نہ تو کسی بین الاقوامی قانون کی پابند ہے اور نہ ہی اس نے ایٹمی ہتھیاروں کے عدم پھیلاؤ کے معاہدے این پی ٹی پر دستخط کیے ہیں۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے سنہ 1994 سے سنہ 2011 تک ہر سال اپنی قراردادیں پاس کرکے اسرائیل سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ این پی ٹی معاہدے میں شامل ہو اور آئی اے ای اے کے قوانین پر عملدرآمد کرے۔ ایٹمی توانائی کی بین الاقوامی ایجنسی نے بھی سنہ 1987 سے سنہ 1991 تک مسلسل پانچ سال اور اسی طرح سنہ 2009 میں قرارداد پاس کرکے اسی قسم کا مطالبہ کیا۔

مشرق وسطی کو ایٹمی ہتھیاروں سے پاک کئے جانے کا مسئلہ، پہلی بار سنہ 1974 میں ایران اور مصر سمیت چند ملکوں کی جانب سے اٹھایا گیا تھا جو غاصب صیہونی حکومت اور اس کے حامیوں کی جانب سے نظر انداز کئے جانے کی بناء پر تسلیم نہیں کیا گیا۔ حقیقت یہ ہے کہ جب تک علاقے میں اسرائیل کے جوہری ہتھیار موجود ہیں اور ان ہتھیاروں سے خطرہ لاحق ہے اس علاقے میں پائیدار امن و استحکام قائم نہیں ہوسکتا۔ صیہونی حکومت انیس سو ساٹھ سے اب تک اپنا ایٹمی پروگرام جاری رکھے ہوئے ہے اور ایٹمی توانائی کی عالمی ایجنسی سمیت کسی بھی بین الاقوامی ادارے کی اسرائیل کی ایٹمی سرگرمیوں پر کوئی نگرانی نہیں ہے۔ ایٹمی توانائی کی عالمی ایجنسی نے انیس سو اکیاسی میں اسرائیل کی حکومت سے درخواست کی تھی کہ وہ اپنی ایٹمی تنصیبات کو آئی اے ای اے کے معائنہ کاروں کے لیے کھول دے لیکن صیہونی حکومت نے یہ درخواست مسترد کر دی۔ اسرائیل نے اسی طرح ایٹمی ہتھیاروں کے عدم پھیلاؤ کے معاہدے این پی ٹی اور حیاتیاتی ہتھیاروں پر پابندی کے بین الاقوامی معاہدے پر بھی دستخط نہیں کیے ہیں۔ صیہونی حکومت دو ہزار چھ میں مشرق وسطی کے ایٹمی ہتھیاروں کے سکیورٹی کنٹرول کے دائرے سے بھی نکل گئی۔

رہبر انقلاب اسلامی آیۃ اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے اپریل دو ہزار گیارہ میں تہران میں منعقدہ بین الاقوامی ترک اسلحہ کانفرنس کے نام اپنے پیغام میں اس بات پر زور دیا تھا کہ ملت ایران کہ جو خود کیماوی ہتھیاروں کا شکار ہوئی ہے، دوسری قوموں سے زیادہ اس قسم کے ہتھیاروں کی تیاری اور انہیں ذخیرہ کرنے کے خطروں کو محسوس کرتی ہے اور ان کا مقابلہ کرنے کے لیے اپنے وسائل بروئے کار لانے کے لیے تیار ہے۔ اور ایران ، اسلامی تعلیمات کی بنیاد پر ایٹمی ہتھیاروں کی تیاری کو بلکہ ان کے استعمال کو بھی حرام سمجھتا ہے اور وہ کبھی بھی ایٹمی ہتھیار تیار کرنے کی کوشش نہیں کرے گا ۔ رہبر انقلاب اسلامی کا یہ پیغام اقوام متحدہ اور سلامتی کونسل کی سرکاری دستاویز کی حیثیت سے درج کیا گیا ہے۔ 

ٹیگس