Oct ۳۰, ۲۰۱۷ ۱۷:۱۸ Asia/Tehran
  • سعودی عرب یمن کے دلدل میں پھنس کر، ایران کے خلاف پروپیگنڈے میں مصروف

یمن پر دو سال قبل سے سعودی عرب کے مسلسل جارحانہ حملے جاری ہیں اور ان حملوں نے یمن کو انسانی المیے سے دوچار کردیا ہے - لیکن ایسے میں کہ جب سعودی عرب یمن کی جنگ کے دلدل میں پھنس چکا ہے، اس ملک کے حکام اور سعودی عرب کے اتحادی ممالک اپنے بیہودہ اور بے بنیاد الزامات کے ذریعے اس کوشش میں ہیں کہ اپنی ناکامیوں پر پردہ ڈالیں-

سعودی عرب کے وزیر خارجہ عادل الجبیر نے اتوار کو ، ریاض میں منعقدہ یمن پر سعودی جارح اتحاد کے حامی ملکوں سے موسوم کانفرنس میں ایک بار پھر اپنے ایران مخالف تکراری بیان میں اس بات کا دعوی کیا ہے کہ ایران بدستور یمن کی عوامی تحریک انصاراللہ کی حمایت کر رہا ہے اور یمن کے بحران کے حل میں رکاوٹیں کھڑی کر رہا ہے- یمن پر جارحیت کرنے والے سعودی اتحاد کے رکن ملکوں کے وزرائے خارجہ اور فوجی سربراہوں نے ریاض اجلاس کے اختتامی بیان میں دعوی کیا کہ  یمن کی عوامی تحریک انصار اللہ، ایران سے میزائل حاصل کرتی ہے، جسے روکنا ضروری ہے۔

عادل الجبیر نے گذشتہ جمعے کو بھی اسکائی نیوز چینل کے ساتھ انٹرویو میں اپنے بے بنیاد دعووں کا اعادہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگر ایران چاہتا ہے کہ عالمی برادری میں وہ فعال رکن بن جائے تو اسے چاہئے کہ دیگر ملکوں کے امور میں مداخلت سے دستبردار ہوجائے- اسلامی جمہوریہ ایران نے بارہا تاکید کی ہے کہ سعودی عرب گذشتہ برسوں کے غلط اور پرخرچ اقدامات کے ذریعے بدستور اپنی لاحاصل کوششیں جاری رکھے ہوئے ہے جبکہ اس ملک کو چاہئے کہ دور اندیشی اور اپنی مصلحتوں اور ذمہ داریوں کی بنیاد پر علاقے کے حقائق کا صحیح طور پر اداراک کرے اور تعصب کو بالائے طاق رکھ کر ہر طرح کی ہٹ دھرمی سے بازآجائیں- 

ریاض کے حکام کو ان حقائق کو تسلیم  اور یہ قبول کرنا چاہئے کہ انہیں دو میدانوں میں شکست اور نقصان کا سامنا کرنا پڑا ہے- پہلا میدان امریکہ اور اسرائیل کی نیابت میں لڑی جانے والی جنگیں ہیں ، چاہے وہ شام میں ہو یا یمن میں، انہیں شکست و ناکامی کے سوا اور کچھ حاصل نہیں ہوا ہے اور دوسرا میدان جس میں انہیں نقصان اٹھانا پڑا ہے اربوں کا ڈالر کے سرمائے کی نابودی ہے کہ جسے انہوں نے ہتھیاروں کی خریداری میں صرف کئے ہیں اور یہ ہتھیار صرف نیابتی جنگوں اور بےگناہ عوام کو قتل کرنے میں استعمال کئے گئے ہیں-  

برطانوی ذرائع نے حال ہی میں رپورٹ میں کہا ہے کہ دوہزار سترہ کے ابتدائی چھ مہینوں میں برطانیہ نے سعودی عرب کو ایک ارب دس کروڑ سے زیادہ کی مالیت کے ہتھیار فروخت کئے ہیں- امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دورۂ ریاض کے موقع پر بھی ایک سو دس ارب ڈالر کے ہتھیاروں کے معاہدے پر دستخط کئے گئے تھے- سعودی عرب نے ان ہتھیاروں کے ذریعے ہزاروں عام شہریوں کا قتل عام کیا ہے اور لاکھوں افراد کو بھوک مری اور بیماری سے دوچار کر دیا ہے- 

عالمی برادری نے کئی بار سعودی عرب جیسی خطے کی جارح، مہم جو اور توسیع پسندانہ عزائم کی حامل حکومت کو یمن کے خلاف جارحانہ ہتھیاروں کی فراہمی کے تباہ کن نتائج سے خبردار کیا ہے۔  ایران کی وزارت خارجہ کے ترجمان بہرام قاسمی نے بھی اس بات پر تاکید کرتے ہوئے کہ تہران نے یمن پر سعودی جارحیت کے آغاز پر ہی اس جارحیت کی مذمت کی اور اسے فوری طور پر بند کئے جانے کا مطالبہ کیا تھا کہا کہ ریاض اجلاس میں جھوٹے دعوؤں کے اعادے سے ان لوگوں سے انسانی و بین الاقوامی ذمہ داری کم نہیں ہو جائے گی جنھوں نے وحشیانہ جرائم کا ارتکاب کیا ہے۔

امریکہ نے ایسے عالم  میں خلیج فارس کے بعض ممالک کو ہتھیاروں کی فراہمی کا سلسلہ شروع کررکھا ہے کہ ان ہتھیاروں نے خطے کی سلامتی کو اپنے نشانے پر لے رکھا ہے ۔امریکہ اور سعودی عرب کے درمیان ہتھیاروں کی خریداری کے اربوں ڈالر کے سودے انجام پاچکے ہیں اور اس میں گزشتہ کچھ عرصے میں نمایاں اضافہ ہوا ہے ۔ سعودی عرب اور مغرب کے درمیان فوجی شعبے میں حالیہ تعاون کا نتیجہ علاقے میں نئے مسائل پیدا کرنے کے علاوہ کچھ اور برآمد نہیں ہوا ہے ۔ سعودی عرب کو جدید ہتھیاروں سے لیس کرنے کا اقدام ایسے عالم میں انجام پارہا ہے کہ اس ملک کے تمام اقدامات علاقائی امن و استحکام سے تضاد رکھتے ہیں اور قرائن سے بھی بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے  کہ سعودی عرب علاقے میں تکفیری گروہوں کو مسلح کرنے میں ممد و معاون ثابت ہورہا ہے اور ان دہشتگرد گرد گروہوں کی، تکفیری وہابی نظریاتی بنیادیں بھی سعودی حکومت سے ہی وابستہ ہیں-

 

 

 

      

 

ٹیگس