نیویارک میں دہشت گردانہ واقعہ اور اس کے نتائج
نیویارک میں سولہ سال کے بعد ایک بار پھر دہشت گردانہ حملہ کیا گیا- مذکورہ حملہ 11 ستمبر 2001 کو ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر حملے کے بعد تعمیر یادگار کے قریب کیا گیا جہاں اسکولوں کی بڑی تعداد موجود ہے تاہم اسے نیویارک میں ستمبر 2001 کے حملے کے بعد سے اب تک کا سب سے خطرناک حملہ قرار دیا جا رہا ہے۔
31 اکتوبر کو ایک ایسا حادثہ رونما ہوا جو اتفاقا نیویارک کے ورلڈٹریڈ سینٹر کے قریب ہوا اور جس سے ایک بار پھر یہ ظاہر ہوگیا کہ امریکہ دہشت گردانہ حملوں کی زد پرہے-
امریکی میڈیا کی رپورٹس کے مطابق حملہ آور ایک 29 سالہ ازبک شہری ہے جو 2010 میں امریکہ منتقل ہوا تھا، لیکن اس کے پاس جو پک اپ ٹرک تھا وہ کرائے پر لیا گیا تھا- کہا جا رہا ہے کہ سیف اللہ حبیب اللہ اویچ سایپوف کے اس ٹرک میں ایک خط ملا ہے جس میں اس نے داعش کے لئے اپنی حمایت کا اعلان کیا ہے- سایپوف نے اس پک اپ ٹرک سے نیویارک کے لوئر مین ہٹن میں سائیکل لین میں راہگیروں کو ٹکر مار کر کم از کم 10 افراد کی جان لے لی، جبکہ 12 دیگر زخمی ہوگئے ہیں۔
افسران نے اسے ’’دہشت گردانہ حملہ‘‘ بتایا ہے۔ نیویارک کے پولس کمشنر جیمس او نیل نے بتایا کہ 29 سالہ پک اپ ٹرک ڈرائیور جب ایک اسکول بس میں ٹکر مار کر فرار ہونے کی کوشش کر رہا تھا اسی دوران پولس نے اس کے پیٹ میں گولی ماری اور اسے حراست میں لے لیا۔ اسکول بس میں سوار دو بچے اور دو دیگر افراد زخمی ہو گئے ۔ امریکی ہوم لینڈ سیکورٹی محکمے کے ایک ترجمان نے اس واقعہ کو’’ دہشت گردی کی واضح کارروائی ‘‘ بتایا ہے۔
یہ واقعہ ایسے وقت میں رونما ہوا ہے کہ امریکہ میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دور صدارت میں، سیکورٹی کی سخت تدابیر اختیار کی گئی ہیں اور غیرملکی باشندوں خاص طور پر بعض اسلامی ملکوں کے باشندوں کے امریکہ میں داخل ہونے کے تعلق سے بھی سخت قوانین نافذ کئے گئے ہیں- اس وقت سیکورٹی کے بہانے سے چھ مسلم ملکوں کے باشندوں کے امریکہ میں داخل ہونے پر روک لگا دی گئی ہے-
پناہ گزینوں کو امریکہ میں داخل ہونے نہیں دیا جا رہا ہے اور امریکہ کے سبھی ہوائی اڈوں پر مسافروں کے لئے سخت قوانین وضع کئے گئے ہیں- اس کے باوجود کوئی بھی سخت قانون ، سایپوف جیسے شخص کو دہشت گردانہ کاروائی انجام دینے کی راہ میں رکاوٹ نہیں بن سکا- خیال رہے کہ امریکا میں سلسلہ وار دہشت گردی کے واقعات رونما ہورہے ہیں جن میں رواں سال کا اب تک کا خطرناک حملہ لاس ویگاس میں میوزیکل کنسرٹ پر کیا گیا جس میں 52 افراد ہلاک جبکہ 500 سے زائد زخمی ہوئے تھے۔
اہم نکتہ یہ ہے کہ سایپوف گذشتہ سات برسوں سے امریکہ میں ساکن ہے جبکہ ٹرمپ حکومت نے امریکہ میں نئے افراد کے داخل ہونے سے متعلق قوانین نافذ کئے ہیں- اسی طرح ازبکستان کے باشندوں کی امریکہ میں داخلے پر پابندی ہے اور نہ ہی کسی قسم کی ممنوعیت ہے - گزشتہ چند مہینوں کے دوران ، ٹرمپ کی جانب سے بعض ملکوں کے خلاف امریکہ میں داخل ہونے پر پابندی لگانے کے بعد وسیع پیمانے پر احتجاج کئے گئے تاہم ٹرمپ اور اس کے مشیروں نے کہا کہ اس طرح کے اقدامات، امریکی عوام کو سیکورٹی فراہم کرنے اور امریکہ میں دہشت گردوں کے داخلے کی روک تھام کے لئے عمل میں لائے گئے ہیں - لیکن اس وقت شہر نیویارک میں دہشت گردانہ واقعے کے رونما ہونے سے ان کی ساری دلیلیں بیکار ثابت ہوگئیں-
البتہ اس بات کی توقع کی جاتی ہے کہ نائن الیون کے واقعے کے بعد ہونے والے اس دہشت گردانہ حملے میں کہ جس میں دس افراد ہلاک ہوئے ہیں امریکی حکومت اس ملک میں سیکورٹی کے مزید سخت انتظامات کرے گی اور مسلمان مخالف دھڑوں اور گروہوں میں بھی اضافہ بھی ہوگا- باوجود یہ کہ پوری دنیا میں مسلم مذہبی اور سیاسی رہنماؤں نے ہمیشہ دہشت گردانہ اقدامات اور بے گناہ عوام کے قتل عام کی مذمت کی ہے لیکن امریکی حکام دہشت گردانہ کاروائیاں انجام دینے والوں کو جہادی اور مسلمان قرار دے کر، تمام مسلمانوں کو ہدف تنقید قرار دیتے ہیں اور اسلامو فوبیا کو ہوا دیتے ہیں- یہ ایسی حالت میں ہے کہ گذشتہ دو عشروں کے دوران دنیا میں مسلمان طبقہ، دیگر مذاہب کے پیروکاروں سے بڑھ کر، بالواسطہ یا بلا واسطہ طور پر دہشت گردانہ حملوں کا نشانہ بنا ہے اور دہشت گردانہ حملوں میں مشتبہ ہونے کی بابت اس نے بھاری قیمت ادا کی ہے-