Nov ۰۱, ۲۰۱۷ ۱۷:۳۸ Asia/Tehran
  • صیہونی حکومت کے ساتھ ہر قسم کی جد و جہد جاری رکھنے پر رہبر انقلاب کی تاکید

رہبر انقلاب اسلامی آیۃ اللہ العظمی خامنہ ای نے لبنان میں علماء استقامت کی عالمی یونین کی دوسری کانفرنس کے انعقاد کی مناسبت سے اپنے پیغام میں غاصب صیہونی حکومت کے خلاف جدوجہد جاری رکھنے پر تاکید فرمائی ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی  حضرت آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے لبنان میں مزاحمتی تحریک کی عالمی علماء یونین کے سربراہ شیخ ماہر حمود کے نام اپنے پیغام میں فرمایا ہے کہ جارح صیہونی حکومت کے خلاف جدوجہد جاری رکھنا ان سب کے لئے ضروری ہے جو اپنے تئیں اس عظیم ذمہ داری کو محسوس کرتے ہیں- 

رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ بلا شبہ یہ ذمہ داری زیادہ تر علماء، دانشوروں اور سیاستدانوں نیز اسلامی ملکوں کے حکام کے کاندھوں پر عائد ہوتی ہے۔ یقینا صیہونی حکومت کے خلاف مزاحمت اورجدوجہد اور جہاد، مقدس اور نیک انجام کا حامل ہے- صیہونی حکومت کے خلاف مزاحمت اور اس سلسلے میں علماء کا کردار، ایک ایسے جارح کے مقابلے میں استقامت و مزاحمت کی روایت ہے کہ جس میں سازباز کا کوئی تصور نہیں ہے-

صیہونی حکومت اسی لئے مزاحمتی گروہوں اور دھڑوں سے انتہائی خوفزدہ رہتی ہے اور اس نے مزاحمتی اہلکاروں سے مقابلے کے لئے مختلف اسٹریٹیجی اپنا رکھی ہے۔ تل ابیب کے انسٹی ٹیوٹ فار نیشنل سیکورٹی اسٹڈیز سنٹر نے 2016 اور 2017 میں سیکورٹی کے خطرات کا جائزہ لیتے ہوئے حزب اللہ لبنان کو اسرائیل کے لئے سب سے بڑا خطرہ قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ حزب اللہ قوی و مستحکم ارداوں کی حامل ہے۔

اسرائیل کے ٹیلی ویژن چینل دس نے بھی اپنی ایک رپورٹ میں کچھ عرصہ قبل کہا تھا کہ اسرائیلی فوج نے حزب اللہ کے ساتھ ممکنہ جنگ کے سینیریو کے بارے میں اپنے تازہ ترین جائزے میں اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ وہ حزب اللہ کی میزائلی قوت کا مقابلہ نہیں کرسکتی - اس رپورٹ میں کہا گیا  کہ ہزاروں کی تعداد میں حزب اللہ کے درمیانہ فاصلے کے اور دور مار میزائل، اسرائیل پر داغے جائیں گے اور آہنین گنبد بھی اتنی زیادہ مقدار میں میزائلوں کے حملوں کو نہیں روک سکے گا ۔ اسرائیلی فوج نے یہ بھی کہا ہے کہ حزب اللہ کے پاس سیکڑوں ڈرون طیارے ہیں جن میں سے بہت سے ایسے بھی ہیں جو حملے کرنے کی بھی توانائی رکھتے ہیں - 

اس وقت مزاحمت کو کمزور کرنے کی کوشش، امریکہ اور اسرائیل کے ایک اہم مقصد اور منصوبہ بندی میں تبدیل ہوگئی ہے۔ صیہونی حکومت اس کوشش میں ہے کہ مزاحمتی گروہوں پر دباؤ اور پابندیاں بڑھانے اور نفسیاتی جنگ چھیڑنے کے ذریعے اور اسی طرح ریاض اور خلیج فارس کے بعض دیگر ممالک کے ساتھ اسٹریٹیجک تعلقات قائم کرکے مزاحمت کو کمزور کردے- 

صیہونی حکومت کے ریٹائرڈ جنرل اور1967 کی چھ روزہ جنگ کے سابق کمانڈر " اویگدر کھلانی" کا کہنا ہے کہ اسرائیل کو یہ اعتراف کرنا چاہئے کہ مزاحمتی گروہوں کے ساتھ ہونے والی جنگوں سے اس نے درس حاصل نہیں کیا ہے وہ کہتا ہے کہ مزاحمت و استقامت نے ایک بڑا درس ہمیں یہ دیا ہے کہ کیوں کہ ہم جانتے تھے کہ مزاحمت کے پاس اعلی صلاحیتوں اور طاقت کے حامل میزائل ہیں، لیکن اس کے باوجود ہم نے جنگ شروع کردی-

ان جنگوں نے یہ ثابت کردیا ہے کہ جو کوئی بھی جنگ میں تنوع اور جدت عمل  رکھتا ہو وہ ہمیشہ میدان میں کامیاب ہے- یہ وہی حقیقت ہے کہ جس سے اسرائیل کو نقصان پنہچا ہے-

 رہبر انقلاب اسلامی نے علمائے استقامت کی دوسری عالمی کانفرنس کے نام اپنے پیغام میں اسرائیل کے خلاف جد وجہد اور جہاد پر تاکید کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ  اس مقدس جہاد میں اسلام اور مسلمانوں کی فتح یقینی ہے اور آج علماء اور دانشوروں کی کانفرنس اس سلسلے کی اہم کڑی ہے۔

ٹیگس