Nov ۰۲, ۲۰۱۷ ۱۶:۵۷ Asia/Tehran
  • مین ہیٹن حادثے کے بارے میں تحقیقات کے لئے ازبکستان کی آمادگی

ازبکستان کے صدر نے ایک پیغام میں کہا ہے کہ نیویارک کے مین ہیٹن حادثے کی تحقیقات کے عمل میں مدد کے لئے تاشقند آمادہ ہے-

ارنا کی رپورٹ کے مطابق ازبکستان کے صدر شوکت میرضیائف نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے نام ایک پیغام میں مین ہیٹن کے حادثے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے اس واقعے کی تحقیقات کے عمل میں تاشقند کی ہمہ جانبہ مدد کی بات کہی ہے۔

مین ہیٹن میں منگل کی رات کو رونما ہونے والے حادثے کے بعد، کہ جس میں ایک شخص نے راہگیروں پر پک اپ گاڑی چڑھا دی جس کے نتیجے میں آٹھ افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہوگئے امریکی حکام نے اس حادثے کو دہشت گردی کا واقعہ قرار دیا ہے- کہا جا رہا ہے اس حادثے کو انجام دینے والے شخص کا نام سیف اللہ سایپف تھا جو ازبک شہری تھا اور اس نے دوہزار دس میں امریکہ مہاجرت کی تھی- مین ہیٹن کے واقعے پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے امریکی صدر ٹرمپ نے ٹوئیٹر پر ایک پیغام میں مین ہیٹن کے واقعے کو دہشت گردی کا واقعہ قرار دیتے ہوئے اس بات کا دعوی کیا ہے کہ سب کچھ زیر نظر ہے اور داعش کو امریکہ میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دی جائے گی- 

امریکی صدر نے دہشت گردی کے واقعات سے مقابلے اور اپنے ملک کو سیکورٹی فراہم کرنے کے تعلق سے رائے عامہ کو مطمئن کرنے کے لئے ایک ٹوئیٹر پیغام پر ہی اکتفا نہیں کیا بلکہ مختلف پیغامات شائع کئے- انہوں نے ایک اور پیغام میں ٹوئیٹر پر لکھا کہ اس کے بعد کہ داعش کو ہم مشرق وسطی یا اور جگہوں پر شکست دے چکے ہیں اب ان کو ملک میں واپسی یا داخل ہونے کی اجازت نہیں دیں گے۔ ٹرمپ نے اپنے ایک ٹوئٹ میں مین ہیٹن میں ہلاک ہونے والوں کے ساتھ اظہار ہمدردی کیا اور کہا ہے کہ انہوں نے محکمہ ہوم لینڈ سیکورٹی کو امریکا آنے والے غیر ملکیوں کی جانچ پڑتال مزید سخت کرنے کا حکم دیا ہے۔ 

عینی شاہدین کے مطابق منگل کو امریکی شہر نیو یارک میں سڑک کنارے کھڑے افراد کو پک اپ گاڑی تلے روندنے اور فائرنگ کے واقعے میں، آٹھ افراد ہلاک اور پندرہ سے زائد زخمی ہوگئے۔ نیو یارک پولیس محکمے کے مطابق حملہ آور نے اپنی گاڑی سے اتر کر فائرنگ بھی شروع کردی تاہم پولیس کی جوابی فائرنگ سے حملہ آور زخمی ہو گیا جسے فوری طور پر گرفتار کر لیا گیا۔ امریکی میڈیا کی رپورٹوں  کے مطابق حملہ آور ازبکستان کا شہری ہے اور اس کا نام سیف اللہ حبیب اللہ وچ سائیپوف بتایا جاتا ہے اسی لئے ازبکستان کے صدر مجبور ہوئے تاکہ اپنے امریکی ہم منصب کے نام ایک پیغام میں، مین ہیٹن کے واقعے کی مذمت کرتے ہوئے اس سلسلے میں تحقیقات کے لئے تاشقند کی ہمہ جانبہ آمادگی کا اعلان کریں-

کہا جا رہا ہے کہ سیف اللہ سایپف ازبک 2010 میں قانونی طور پر امریکہ میں داخل ہوا تھا- امریکی پولیس نے اعلان کیا ہے کہ سایپف کی گاڑی میں جو تحریر میں ملی ہے اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ اس نے تکفیری دہشت گرد گروہ داعش کی بیعت کی تھی- سیاسی حلقے مین ہیٹن جیسے واقعات کو، امریکہ کی یکطرفہ اور آمرانہ خارجہ پالیسی کا نتیجہ قرار دے رہے ہیں- 

گیارہ ستمبر کے واقعے کے بعد ساری دنیا کی ہمدردیاں امریکہ کے ساتھ ہوگئیں اور اسے پوری دنیا اور خاص طور سے اسلامی ممالک میں من مانی کرنے کا موقع ہاتھ آگیا۔  سولہ برس گزرنے کے بعد بھی یہ سوال باقی ہے کہ گیارہ ستمبر کے حملے میں کون ملوث ہے اور اس کے پس پردہ اصل اہداف کیا تھے اور جہاز اغوا کرنے والوں کا اصل ہدف ورلڈ ٹرید سینٹر تھا یا پھر پینٹاگون اور وائٹ ہاوس کی عمارتیں ؟  ظاہر ہے کہ ان سوالوں کے جوابات گیارہ ستمبر کے واقعات کے اصل اہداف اور اس میں ملوث اصل عناصر کے بے نقاب کرنے میں مددگار ثابت ہوسکتے ہیں لہذا ایسا لگتا ہے کہ امریکی حکمرانوں کو اس میں کوئی دلچسپی نہیں ہے اور وہ بدستور اس واقعے کو اپنے سیاسی اور فوجی مقاصد کو آگے بڑھانے کے لیے استعمال کرنے کی کوشش کر رہے ہیں‎۔

 برطانوی اخبار ڈیلی اسٹار نے ایک رپورٹ میں کہا تھا کہ امریکی ماہرین کے مطابق نائن الیون کا سانحہ خود امریکی حکومت اور اس کی اتحادی حکومت سعودی عرب کا کارنامہ ہے۔ سعودی عرب امریکہ کا اہم اتحادی ملک ہے اور نائن الیون حملے امریکہ، سعودی عرب اور اسرائیل کی ملی بھگت سے ہوئے۔ بہرصورت غورطلب بات یہ ہے کہ ٹرمپ بھی دیگر امریکی صدور کی مانند ملک میں بدامنی کی اصلی وجہ بتانے کے بجائے بدستور واقعے کے ظاہر پر نظر جمائے ہوئے ہیں اور اپنے غیر عاقلانہ فیصلوں کی توجیہ کر رہے ہیں۔

ٹیگس