ایران، روس اور جمہوریہ آذربائیجان کے تعلقات اسٹریٹیجک اہمیت کے حامل
ایران، روس اور جمہوریہ آذربائیجان کے سربراہوں کا دوسرا اجلاس بدھ کی رات تہران میں منعقد ہوا اور طے شدہ پروگرام کے مطابق تینوں ملکوں کے سربراہوں کا تیسرا اجلاس دو ہزار اٹھارہ میں روس میں ہوگا۔
یہ اجلاس تین پہلوؤں سے اہمیت کا حامل ہے - اول یہ کہ تہران کا کردار علاقائی تعاون کے مرکز کی حیثیت سے ، خاص طور پر ایسے حالات میں جب امریکہ اس کوشش میں ہے کہ ایران کے علاقائی کردار کی غیر حقیقی تصویر دنیا والوں کے سامنے پیش کرے، بہت واضح ہے –
دوسرے یہ کہ اس اجلاس میں جو مسائل پیش کئے گئے، وہ پڑوسی ملکوں کے درمیان تعامل اور علاقائی گنجائشوں اور صلاحیتوں کے دائرے میں، سہ فریقی تعاون کے پیش نظر اسٹریٹیجک اہمیت کے حامل ہیں-
تیسرے یہ کہ اس اجلاس میں قفقاز سے لے کر مغربی ایشیاء کے ملکوں کے بحرانوں پر بھی خاص توجہ دی گئی جس سے اس امر کی نشاندہی ہوتی ہے کہ اس سلسلے میں مشترکہ نقطہ نگاہ تک پہنچا جا سکتا ہے اور یہ چیز علاقے کے تمام ملکوں کے لئے ایک اچھا پیغام ہے-
اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر نے روسی صدر کے ساتھ ملاقات میں کہا کہ اسلامی جمہوریہ ایران کے لئے روس، ایک دوست اور ہمسایہ ملک نیز اسٹریٹیجک شراکت دار کے طور پر خاص اہمیت رکھتا ہے اور ایران تمام شعبوں میں روس کے ساتھ تعلقات کو وسعت دینے کے لئے آمادہ ہے.
ایران کے صدر ڈاکٹر حسن روحانی نے تہران میں ایران، روس اور جمہوریہ آذربائیجان کے صدور کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس میں بھی دو طرفہ اور علاقائی مسائل میں تینوں ملکوں کے درمیان وسیع سمجھوتوں کا ذکر کیا اور کہا کہ ایران، روس اور آذربائیجان کا مقصد، تینوں ملکوں کی توانائیوں اور صلاحیتوں سے استفادہ اور زیادہ سے زیادہ اچھی ہمسائیگی کے ساتھ تعلقات کو قریب تر بنانا ہے۔
ایشیاء اور مشرق وسطی کے امور میں ایران کے نائب وزیر خارجہ محمد ابراہیم رحیم پور نے گزشتہ اگست میں ایران یوریشیا اسٹڈیز سنٹر میں منعقدہ ایک اجلاس میں ایران روس اور آذربائیجان کے سہ فریقی اجلاس کے بارے میں کہا تھا کہ اس اجلاس کو ایران اور روس کے تعلقات میں سنگ میل کی حیثیت حاصل ہے اور اس کی وجہ بھی ایسے مسائل ہیں جو تہران اور ماسکو کے تعلقات میں پائے جاتے ہیں یہاں تک کہ دونوں فریق نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ یہ تعلقات اسٹریٹیجک صورت اختیار کرجائیں- اس وقت علاقے اور دنیا میں ایسے واقعات رونما ہوئے ہیں کہ جن سے فریقین کی توجہ ایک دوسرے کی جانب مبذول ہوئی ہے-
ایران ، روس اور جمہوریہ آذربائیجان کا سہ فریقی اجلاس مجموعی طور پر ، سہ فریقی تعلقات میں نئے باب کے اضافے کے لئے ان ملکوں کے پختہ عزم کی علامت ہے- ایران کے ساتھ روس کے اقتصادی تعلقات ایک طرف، تو دوسری طرف جمہوریہ آذربائیجان کے ساتھ بھی اس کےاقتصادی تعلقات، چند فریقی معاملات میں توسیع کا سبب بنے ہیں-
اسٹریٹیجک اقتصادی مسائل کے ساتھ ہی، سیکورٹی نقطہ ہائے نگاہ سے بھی مغربی ایشیاء اور قفقاز میں رونما ہونے والی تبدیلیاں تینوں ملکوں کے لئے بہت اہمیت رکھتی ہیں اور اس طرح کی نشستیں اور اجلاس، علاقے میں امن و استحکام کے قیام اور معاشی ترقی میں اہم اثرات کے حامل قرار پا سکتے ہیں- قفقاز کے مسائل کے ماہر افشار سلیمانی نے ایلنا کے ساتھ گفتگو میں شمال جنوب کوریڈور کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہ جو ایران اور روس اور قفقاز کے ملکوں کے درمیان تعاون میں اہمیت کا حامل ہے کہتے ہیں : ایران ، روس اور جمہوریہ آذربائیجان جیوپولیٹکل اور جیو اکانامک گنجائشوں کے حامل ممالک ہیں اور یہ ممالک آپس میں مل کر اچھے حالات فراہم کرسکتے اور باہمی تعاون کے نئے دروازے کھول سکتے ہیں- انہوں نے کہا کہ درحققیت تہران، باکو اور ماسکو کے درمیان تعاون کی نئی راہیں ہموار ہونے سے امن و استحکام کو تقویت ملے گی اور علاقے کے عوام کی رفاہ و آسائش میں اضافہ ہوگا-
ایران ، روس اور آذربائیجان کے درمیان انجام پانے والی مشترکہ کانفرنس میں روس کے صدر ولادیمیر پوتن نے بھی تینوں ملکوں کے سربراہوں کے درمیان ہونے والے مذاکرات پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے تینوں ممالک کے درمیان تمام شعبوں میں تعلقات کی توسیع کی ضرورت پر تاکید کی- اس پریس کانفرنس میں آذربائیجان کے صدر الہام علی اف نے بھی ایران، آذربائیجان اور روس کے درمیان سہ فریقی مذاکرات کو کامیاب قرار دیا اور کہا کہ تینوں ملکوں کے مابین تعلقات فروغ پا رہے ہیں۔
ایران، روس اور آذربائیجان کا پہلا سہ فریقی اجلاس اگست دو ہزار سولہ میں باکو میں منعقد ہوا تھا۔