لبنانی وزیراعظم کے مشکوک استعفے کے پیچھے موجود سعودی سازش
لبنانی وزیر اعظم سعد حریری کے مشکوک استعفے کا موضوع بدستور علاقے کی خبروں کی سرخیوں میں ہے اور رائے عامہ، سعد حریری کے اس غیرسنجیدہ اقدام کی وجوہات اور انجام کے بارے میں مختلف سوالات اٹھا رہی ہے-
سعودی عرب میں سعد حریری کے استعفے کا اعلان سیاسی میدان میں ایک غیرسفارتی اقدام ہے جو اب تک رائج نہیں رہا ہے اور اس استعفے میں موجود بعض ایسی عبارتیں کہ جن سے سعد حریری کا خوف و تشویش بخوبی جھلک رہی تھی ، اس حقیقت کی عکاسی کر رہی ہے کہ اس استعفے کے پیچھے کوئی سازش چھپی ہے- اس سلسلے میں سیاسی حلقوں کا کہنا ہے کہ لبنانی وزیراعظم سعودی عرب کی جانب سے درپیش خطرات اور دھمکیوں کے پیش نظریہ غیرسنجیدہ قدم اٹھانے پر مجبور ہوئے ہیں- بعض اخبارات کا کہنا ہے کہ سعودی عرب ، سعد حریری پر علاقے میں اپنی تفرقہ اندازی اور فتنہ پیدا کرنے والی پالیسیوں کو آگے بڑھانے کے لئے دباؤ ڈال رہا ہے-
سعد حریری کے بیانات کا وہ حصہ جس میں انھوں نے تاکید کے ساتھ اپنا قتل کردیئے جانے کی فکر ظاہر کی ہے، قابل غور ہے- سعد حریری نے اپنے استعفے میں دعوی کیا ہے کہ لبنان کا موجودہ ماحول دوہزارپانچ میں ان کے والد اور اس ملک کے سابق وزیراعظم رفیق الحریری کے زمانے کے حالات سے بہت مشابہ ہے- سعد حریری نے کہا کہ میں نے محسوس کیا ہے کہ بعض مجھے قتل کرنا چاہتے ہیں اس لئے وزارت عظمی کے عہدے سے مستعفی ہو رہا ہوں- سعدحریری کا بیان اپنے والد رفیق حریری کے مشکوک قتل کی جانب اشارہ ہے کہ جس کے پیچھے بھی صیہونی - سعودی سازش نظرآتی ہے-
صیہونیزم کی حامی مغربی حکومتیں ، سعودی عرب اور لبنان میں اس کے آلہ کار یعنی مغرب پرست چودہ مارچ گروہ رفیق حریری قتل کیس کی سماعت کرنے والی عدالتی کارروائی کو سیاسی رنگ دے کرعدلیہ کا کام سرانجام پانے اور قتل کی سازش کے خفیہ پہلؤوں کے واضح ہونے کی راہ میں رکاوٹ ڈال رہا ہے لیکن زمانہ گذرنے اور اس قتل کے بعض پہلؤوں کے سامنے آنے سے ثابت ہوگیا کہ رفیق حریری پر قتل سے پہلے آل سعود اور صیہونیزم کے آلہ کاروں کا سخت دباؤ تھا-
ان حالات میں بعض سیاسی حلقوں کی جانب سے سعد حریری کو سعودی عرب بلائے جانے اور وہیں ان کے استعفے کے اعلان کو انھیں علاقے میں سعودی عرب کے مفادات کے دائرے میں مزید قدم اٹھانے پر مجبور کئے جانے کے لئے آل سعود کے ہاتھوں یرغمال بنا لیئے جانے کے مترادف قرار دیا جا رہا ہے- ایک دوسرا موضوع جو سعودی عرب، سعد حریری کے استعفے کے ذریعےاٹھانا چاہتا ہے وہ لبنان کو بھی یمن جیسے حالات سے دوچار اور اس ملک میں اپنی مزید مداخلت کی زمین ہموار کرنا ہے اور یہی چیز یمن کے مستعفی وزیراعظم منصور ہادی کے استعفے اور انھیں اقتدار میں واپس لانے کے بہانے سعودی عرب کی جانب سےاس ملک کے خلاف بھرپور جنگ شروع کئے جانے نیز یمن میں بڑے پیمانے پرمداخلت میں بخوبی دیکھی جاسکتی ہے-
سعودی عرب میں سعد حریری کے استعفے کے سلسلے میں ایک اور قابل غور نکتہ ان کے استعفے کے اعلان کا وقت ہے- سعودی عرب کی یہ نئی ہنگامہ آرائی اور استقامتی محاذ کے خلاف ماحول تیار کرنے کا کام ٹھیک اس وقت شروع کیا گیا ہے کہ جب یہ محاذ لبنان میں تکفیری دہشتگردوں کو مکمل شکست سے دوچار کرنے کے ساتھ ہی عراق و شام میں سعودی عرب کے حمایت یافتہ تکفیری دہشتگـردوں کے مقابلے میں عراق و شام کی حتمی کامیابی کے نہایت قریب پہنچ چکا ہے-
ان حالات نے سعودی عرب کو سیخ پا کردیا ہے اور اسی وجہ سے وہ استقامتی محاذ کے خلاف ماحول تیار کرکے اس سے انتقام لینے کی کوشش کررہا ہے- ان حالات میں سعدحریری ، علاقے میں استقامتی محاذ کے خلاف بے بنیاد الزامات لگانے میں آل سعود کا ٹریبیون بن چکے ہیں- سعد حریری کے اس غیرسنجیدہ اقدام کو علاقے میں بحران کھڑا کرنے کے لئے مغرب اور اس کے آلہ کاروں کی سازشوں کا سلسلہ جاری رہنے کے تناظر میں ایک بڑے منصوبے کا حصہ سمجھنا چاہئے-
اس تناظر میں مسعود بارزانی کے ذریعے عراقی کردستان علاقے کی علیحدگی کے لئے ریفرنڈم کہ جو مجموعی طور پرپورے علاقے کے لئے خطرہ تھا، کے مشکوک انعقاد کا موضوع ختم ہوتے ہی لبنان کی سیکورٹی اور سیاسی استحکام کو درہم برہم کرنا مغربی حکومتوں اور سعودی عرب کے ایجنڈے کا حصہ بن گیا ہے- ان تمام سازشوں کا اصلی مقصد صیہونی حکومت کے خطروں کی جانب سے توجہ ہٹانا اوراس کے مد مقابل استقامت کو کمزور کرنا ہے- لیکن لبنان کے حالات اور اس ملک کے عوام اور حکام کی ہوشیاری سے پتہ چلتا ہے کہ آل سعود اور اس کے ایجنٹوں کے نئے خطرناک کھیل کا ، آل سعود کی پالیسیوں کی مزید ناکامی اورعلاقے میں اس کے عناصر کے حاشیے پر چلے جانے کے سوا کوئی نتیجہ نہیں نکلے گا-