Nov ۰۷, ۲۰۱۷ ۱۶:۵۳ Asia/Tehran
  • سعودی عرب میں گرفتاریوں کی نئی لہر پر اقوام متحدہ کا ردعمل

اقوام متحدہ نے، سعودی عرب کے دسیوں شاہزادوں اور سابق عہدیداروں کی گرفتاری پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے، سعودی حکومت سے اس سلسلے میں وضاحت طلب کی ہے۔

اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کے نائب ترجمان فرحان حق نے نیویارک میں ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ سعودی عرب کو چاہئے کہ وہ ان افراد پر عائد کئے گئے الزامات کے سلسلے میں وضاحت پیش کرے اور ساتھ ہی یہ اس بات کی ضمانت دے کہ یہ الزامات قانونی ہیں۔

واضح رہے کہ حالیہ کریک ڈاون میں اب تک 18  سعودی شہزادوں، 4 وزرا، دسیوں سابق وزیروں سمیت 48 اہم شخصیات کو گرفتار کیا گیا ہے ،مجموعی تعداد چار سو سے زائد بتائی جارہی ہے 

چار نومبر کی رات کو سعودی عرب میں ایک شاہی فرمان کے ذریعے قائم ہونے والی اینٹی کرپشن کمیٹی نے شاہی خاندان کے اہم شہزادوں  سمیت درجنوں وزراء اور کار و باری شخصیات کو گرفتار کرنے کا اعلان کیا۔ یہ اعلان بظاہر دنیا کے لیے ایک ’بریکنگ نیوز‘ تھی، لیکن واقفان حال جانتے ہیں کہ کئی شہزادے ایک سال سے زائد عرصہ سے نظربند تھے۔

سعودی شاہی خاندان کی اندرونی کشمکش سے بے خبر لوگ اِسے کرپشن کے خلاف بڑی کارروائی قرار دے رہے ہیں، تاہم یہ کارروائی صرف اقتدار کی کشمکش نہیں بلکہ خطے میں اہم اسٹریٹیجک تبدیلیوں کی طرف اشارہ بھی ہے۔

سعودی شاہی خاندان کے اندر اقتدار کی کشمکش اگرچہ شاہ سعود اور شاہ فیصل کے دور سے ہی جاری ہے لیکن میڈیا پر پابندیوں اور سوشل میڈیا نہ ہونے کی وجہ سے کئی امور پر پردہ ڈالنا بہت آسان تھا جو اب ممکن نہیں رہا۔ سعودی شاہی خاندان کے اندر اقتدار کی حالیہ کشمکش شاہ سلمان کے تخت نشین ہوتے ہی شروع ہوگئی تھی، کیونکہ جب شاہ سلمان نے جنوری 2015 میں تخت سنبھالا تو ریاست سے باہر شہزادہ محمد کو شاید ہی کوئی جانتا تھا۔

سیاسی حلقوں کا خیال ہے کہ اس امر کے پیش نظر کہ سعودی عرب کے بیشتر حکام منجملہ اس ملک کے ولیعہد، متعدد مالی اسکینڈلز میں ملوث ہیں، ان اقدامات اور حالیہ دنوں میں ہونے والی گرفتاریوں کا، بدعنوانی سے مقابلے سے کوئی ربط نہیں ہے اور درحقیقت یہ اپنے مخالفین کو ختم کرنے کی سعودی ولیعہد محمد بن سلمان کی ایک کوشش ہے۔ لیکن ایک قابل غور نکتہ یہ ہے کہ سعودی عرب میں اقتدار کی جنگ نے خونریز شکل اختیار کرلی ہے۔ سعودی عرب میں  یکے بعد دیگرے رونما ہونے والی مشکوک تبدیلیوں میں سے ایک ، حال ہی میں عسیر کے علاقے میں ہیلی کاپٹر کے حادثے میں منصوربن مقرن کی موت کا واقع ہونا ہے۔ منصور ،عسیر کے علاقے کےایک عہدیدار تھے۔  قابل غور نکتہ یہ ہے کہ منصور بن مقرن سابق ولیعہد شہزادہ محمد بن نائف کے دفتر کے مشیررہ چکے ہیں۔

نیوز ایجنسی میڈل ایسٹ نے پیر کے دن اس بات کا انکشاف کیا ہے کہ منصوربن مقرن سعودی عرب سے فرار کر رہے تھے کہ تب ہی ان کا ہیلی کاپٹر حادثے کا شکار ہوگیا اور اس میں ان کی موت ہوگئی۔  میڈیا رپورٹس کے مطابق بعض ذرائع نے دعوی کیا ہے کہ شاہ فہد کے بیٹے شہزادہ عبدالعزیز بھی گرفتاری کے وقت مزاحمت کے دوران مارے گئے ہیں ۔ بتایا جاتا ہے  ان کے باڈی گارڈز کے ساتھ جھڑپ کے دوران ، سعودی سیکورٹی اہلکاروں نے ان کو ہلاک کردیا۔ 44 سالہ شہزادہ عبدالعزیز سعودی عرب کے مرحوم بادشاہ ، شاہ فہد کے سب سے چھوٹے بیٹے تھے- یہ ایسی حالت میں ہے کہ سعودی حکام نے اعلان کیا ہے کہ وہ شہزادوں، وزراء اور تاجروں کے بینک اکاؤںٹس بھی مالی اسیکنڈل میں ملوث ہونے کے سبب بند کردیں گے۔ سیاسی مبصرین ان اقدامات کا مقصد محمد بن سلمان کے تخت نشینی کے تمام مخالفین کا قصہ تمام کرنے نیز تمام سیاسی اور اقتصادی میدانوں میں موجود مخالفین کو ختم کرنا قرار دے رہے ہیں۔

سعودی شاہی خاندان کی کشمکش کے دوران اگر کوئی شہزادہ یا شہزادوں کا گروہ بغاوت پر اتر آیا تو محمد بن سلمان کے معاشی پروگرام کے تحت ملک میں بڑھتی بے روزگاری، سادگی کے نام پر مراعات کی واپسی کے اقدامات عوام میں بغاوت کی پذیرائی کا باعث بن سکتے ہیں، جن پر قابو پانا ہرگز آسان کام نہیں ہوگا۔  مبصرین کا کہنا ہے کہ سعودی عرب امریکی اور اسرائیلی نقش قدم پر چل رہا ہے جس کی وجہ سے حرمین شریفین کو بھی شدید خطرات لاحق ہوگئے ہیں اور سعودی عرب عالم اسلام میں امریکی اشاروں پر ایک نیا فتنہ کھڑا کرنے کی کوشش کررہا ہے ۔

بہرحال سعودی عرب کی تازہ ترین صورتحال نے ماضی سے زیادہ لوگوں کی توجہ آل سعود کی تشدد پسندانہ اور جارحانہ ماہیت کی طرف مبذول کردی ہے اور سعودی حکام اپنے اہداف تک پہنچنے کے لئے کسی بھی اقدام سے دریغ نہیں کر رہے ہیں۔  

 

 

ٹیگس