چابہار بندرگاہ علاقے کے ملکوں کے درمیان امن و دوستی کی بندرگاہ
پاکستان کی وزارت خارجہ کے ترجمان نے کہا ہے کہ ان کا ملک، اسلامی جمہوریہ ایران کی سرزمین میں واقع چابہار بندرگاہ کے ذریعے افغانستان اور ہندوستان کی تجارت کو، اسلام آباد مخالف اتحاد نہیں سمجھتا ہے۔
محمد فیصل نے کہا کہ پاکستان کے ساتھ اسلامی جمہوریہ ایران، چین اور افغانستان کے درمیان تجارت بدستور جاری ہے اور ایران کی چابہار بندرگاہ کے ذریعے ہندوستان کے گیہوں کی افغانستان برآمدات ایک معمولی مسئلہ ہے اور پاکستان کے بھی اپنے طور پر افغانستان کے ساتھ تجارتی روابط ہیں۔ انہوں نے کہا کہ افغانستان کو حق ہے کہ وہ اپنے پڑوسی ملکوں کے ذریعےعوام کی ضرورتوں کو پورا کرنے کی غرض سے بیرونی ممالک کے ساتھ تجارتی تعلقات قائم کرے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ علاقائی اور بین الاقوامی سطح پر امن و سلامتی کی تقویت میں جو چیز مددگار ثابت ہوسکتی ہے وہ باہمی تعاون میں توسیع اور تجارتی لین دین ہی ہے-
ایران ، ہندوستان، پاکستان اور افغانستان، اپنے باہمی تعاون میں توسیع کے لئے زیادہ گنجائشوں کے حامل ممالک ہیں اور وہ سامانوں کی ٹرانزٹ کا راستہ ہموار کرنے کے ساتھ ہی علاقائی ملکوں کے درمیان اقتصادی روابط کو مضبوط کرسکتے ہیں۔ اس درمیان دو اہم بندرگاہیں یعنی ایران کی چابہار اور پاکستان کی گوادر بندرگاہیں، علاقے کے ملکوں کے درمیان رابطہ پل کی حیثیت سے اہم اور فیصلہ کن کردار ادا کرسکتی ہیں- اس امر کے پیش نظر کہ افغانستان خشکی میں محصور علاقہ ہے اس لئے وہ ایرانی بندرگاہوں کے ذریعے بیرونی ممالک سے اقتصادی رابطہ برقرار کرنے میں کوشاں ہے اور ہندوستان بھی چابہار بندرگاہ کے ذریعے اپنے سامان افغانستان منتقل کرنے کے ساتھ ہی اس کوشش میں ہے کہ اس بندرگاہ کو مرکزی ایشیاء اور قفقاز کے ممالک کے ساتھ تجارتی تعلقات میں استعمال کرے۔ بلاشبہ یہ نہ صرف دو اہم بندرگاہوں چابہار اور گوادر کے درمیان تقابل کے مترادف نہیں ہے بلکہ علاقے کی ٹرانزٹ کی پوزیشن کو مستحکم کرنے کے لئے ایک دوسرے کی تکمیل کرنے والی ہیں -
پاکستان کے ماہر سید مجاہد علی کہتے ہیں: چابہار اور گوادر بندرگاہیں نہ صرف ایک دوسرے کی رقیب نہیں ہیں بلکہ علاقائی ٹرانزٹ کو مستحکم کرنے میں ایک دوسرے کی تکمیل کنندہ ہیں۔ ان دو بندرگاہوں کے ذریعے افغانستان، وسطی ایشیاء کے ممالک ، روس اور علاقے کے دیگر ملکوں تک دسترسی اس حد تک قابل اہمیت ہے کہ شاید چابہاراور گوادر بندرگاہیں ، ان ملکوں کی ٹرانزٹ کے سامانوں اور ان کی لوڈنگ کے لئے تنہا نا کافی ہوں۔
پاکستان کی وزارت خارجہ کے ترجمان نے دو اہم بندرگاہوں چابہار اور گوادر کے درمیان تعاون کے موقف کا اعلان اس کے بعد کیا جب ہندوستان نے حال ہی میں چابہار بندرگاہ کے ذریعے اپنے تجارتی سامانوں کی ایک کھیپ افغانستان ارسال کی ہے۔ اسلام آباد کی جانب سے اس کا خیر مقدم ، علاقے کے دشمنوں کی ہر اس کوشش کو ناکام بنا دے گا جسے وہ چابہار اور گوادر بندرگاہوں کو مدمقابل لا کھڑا کرنے کی غرض سے انجام دے رہے ہیں۔ اگرچہ افغانستان کے پاکستان ساتھ اور پاکستان کے ہندوستان کے ساتھ سیکورٹی اور سیاسی مسائل میں اختلافات پائے جاتےہیں لیکن یہ اختلافات ان کے درمیان علاقائی تعاون کی توسیع میں مانع نہیں ہونے چاہئے بلکہ ان ممالک کو چاہئے کہ اپنے تجارتی لین دین کو فروغ دے کر باہمی تعاون میں توسیع اور کشیدگی کے خاتمے میں فائدہ اٹھائیں۔
پاکستان میں اسٹریٹیجک مسائل کے ماہر سردار احمد اویس لغاری کہتے ہیں: پاکستان کی گوادر بندرگاہ کے قریب چابہار بندرگاہ کا وجود ، مثبت رقابت کا ماحول پیدا کرسکتا ہے اور یہ مثبت رقابت اس بات کا باعث بن سکتی ہے کہ چابہار اور گوادربندرگاہیں موثر اور زیادہ بہتر کارکردگی انجام دیں اور علاقے کی تبدیلیوں پر اثراندازہوں۔
بہر صورت علاقے کے ملکوں کی جانب سے تجارتی تعلقات کی توسیع پر، اختلافات کو ترجیح دینا وقت کو برباد کرنا ہے۔ اس لئے علاقے کے ملکوں کے درمیان رابطہ پل کی حیثیت سے چابہار اور گوادر بندرگاہوں کی پوزیشن مستحکم ہونے سے، نہ صرف بےروزگاری اور علاقے کے عوام کے حالات کو بہتر بنانے میں مدد ملے گی بلکہ یہ چیز سلامتی کی تقویت کا بھی موجب بنے گی۔ علاقائی تبدیلیوں پر ان دو بندرگاہوں کے مثبت اثرات کے ساتھ ہی، جنوبی ایشیاء کے علاقوں کے لئے ایران کی گیس پائپ لائن کا منصوبہ بھی اہم اور اسٹریٹیجک منصوبوں میں شامل ہے کہ جو توانائی کے شعبے میں علاقائی تعاون کی تکمیل میں موثر واقع ہوسکتا ہے۔