سعودی عرب میں اقتدار کی رسہ کشی
سعودی عرب اور اس کے اتحادیوں کے بیانات اور رویے کا جائزہ لینے سے پتہ چلتا ہے کہ ریاض اور اس کے اتحادی علاقے میں جنگ کا نیا میدان لبنان کو بنانا چاہتے ہیں -
سعودی عرب کے بعد بحرین، کویت اور متحدہ عرب امارات نے بھی ایک بیان جاری کرکے اپنے شہریوں کو لبنان سے نکل جانے کی ہدایت جاری کردی ہے- ثبوت و شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ سعودی عرب نے بالعموم مشرق وسطی اور خاص طور سے اسلامی جمہوریہ ایران کے زیراثر علاقے میں اس بار گذشتہ سات برسوں کے دوران پہلی بار لبنان کو نئی جنگ کے لئے چنا ہے- کیونکہ سعودی سعودی عرب مشرق وسطی میں اسلامی جمہوریہ ایران کے مقابلے میں آپے سے باہر ہوگیا ہے - آل سعود نے مشرق وسطی میں اپنے اثر و رسوخ کی تقویت کا جائزہ لینے کے بجائے اسلامی جمہوریہ ایران کا اثر و رسوخ مضبوط ہونے کی راہ میں رکاوٹ ڈالنے کاراستہ اختیار کیا ہے- اس بنیاد پر شام کی قانونی حکومت کا تختہ الٹنے اور اسے استقامت کے محور سے باہر نکالنے کے لئے بھرپور دہشتگردانہ کارروائیاں شروع کرائیں - عراق میں داعش کے دہشتگردانہ حملوں اور ان اقدامات کی حمایت شروع کی جو اس ملک کی مرکزی حکومت کے کمزور ہونے پر منتج ہوں اور یمن میں انصاراللہ کے خلاف براہ راست جنگ شروع کردی- دوسرے لفظوں میں سعودی عرب نے اپنی روایتی اسٹریٹیجک سے باہر نکل کر اسلامی جمہوریہ ایران کے اتحادیوں کے خلاف جارحانہ پالیسی اختیار کی تاہم اس کی جارحانہ پالیسیوں کا نتیجہ یہ نکلا کہ اپنےعلاقائی اتحادیوں کی حمایت میں اسلامی جمہوریہ ایران کی طاقت و صلاحیت سب پر ثابت ہوگئی اور ریاض جن خطرات سے دوسروں کو دوچار کرنا چاہتا تھا خود ہی ان کا شکار ہوگیا- اس سلسلے میں دوسرا اہم نکتہ یہ ہے کہ سعودی عرب ، اپنی خارجہ پالیسی کے سلسلے میں تیسری دنیا کا ملک ہونے کا کھلا مصداق ہے- مشرق وسطی کے معروف سیاسی تجزیہ کار اور مبصر بہجت کورانی کا خیال ہے کہ مشرق وسطی میں خارجہ پالیسی کے فیصلوں پر اثرانداز ہونے والا پہلا فیکٹر، سیاسی رہنماؤں کی نفسیات کا فیکٹر ہے یعنی سیاسی رہنماؤں کے مفادات ، تصورات اور ان کے سماجی اصول و معیارات ہی مشرق وسطی کی خارجہ پالیسی پر اثرانداز ہوتے ہیں -
آج کا سعودی عرب بہجت کورانی کے اس نظریئے کا مصداق ہے کیونکہ محمد بن سلمان دوہزار پندرہ میں ملک عبداللہ کی موت کے بعد اپنے باپ ملک سلمان کے بادشاہ بننے کے بعد ان کے بڑھاپے کے باعث عملی طور پر تمام اختیارات اپنے ہاتھ میں لئے ہوئے ہیں اور اس ملک کا بادشاہ بننے کا خواب دیکھ رہے ہیں- اہم نکتہ یہ ہے کہ ملک سلمان اور ان کے بیٹے محمد نے تخت شاہی کے قریب پہنچنے کے لئے شاہی خاندان کے اندر جو اقدامات کئے اور خارجہ پالیسی کے میدان میں جو فیصلے کئے ان سے مشرق وسطی میں آشوب و بحران مزید بڑھ گیا-
ملک سلمان اور ان کے بیٹے نے مارچ دوہزارپندرہ میں یمن کے خلاف اعلان جنگ کرنے کے بعد اس سال اپریل میں ملک عبدالعزیز کے بیٹے مقرن بن عبدالعزیز ولیعہد کو منصب سے الگ کردیا تاکہ آل سعود میں اقتدار تک پہنچنے کا پہلا اصول ٹوٹ جائے- محمد بن سلمان کو تخت شاہی سے قریب کرنے کے لئے دوسرا اہم واقعہ جون دوہزارسترہ میں پیش آیا جب ملک سلمان نے محمد بن نائف کو ولی عہدی کے منصب سے ہٹا کر اپنے بیٹے محمد کو نیا ولیعھد منصوب کردیا- اس واقعے سے چند روز پہلے ہی سعودی حکومت نے قطرکے ساتھ اپنے سیاسی تعلقات توڑ لئے اور اس وقت بھی کہ جب سعودی عرب میں بڑے پیمانے پر گرفتاریاں اور معزولیاں انجام پائی ہیں ، محمد بن سلمان کو بادشاہ بنائے جانے کا امکان بڑھ گیا ہے- آل سعود کے فیصلے کے تحت سعد حریری لبنان کی وزارت عظمی کے عہدے سے استعفی دینے پر مجبور کئے جاتے ہیں جس سے حزب اللہ لبنان کے خلاف جنگ کے بارے شکوک و شبہات بڑھ گئے ہیں - البتہ اس ممکنہ جنگ میں آل سعود کے لئے امریکہ اور صیہونی حکومت کا جال بھی صاف نظر آرہا ہے- کیا آل سعود ایک بار پھر غلطی کرے گی اور مشرق وسطی کو ایک اور جنگ کی جانب لے جائے گی ؟ اگر ایسا ہوتا ہے تو آل سعود میں آنے والی تبدیلیاں، ملک سلمان سے ان کے بیٹے محمد تک اقتدار کی منتقلی تک ہی محدود نہیں رہیں گی -