ایران سے یورپ کی قربت کے روشن سائے
اسلامی جمہوریہ ایران کے نائب صدر اسحاق جہانگیری نے، تہران میں یورپی یونین کا دفتر کھولے جانے کو ایجنڈے میں قرار دیئےجانے کی خبر دی ہے۔
اسلامی جمہوریہ ایران کے نائب صدر اسحاق جہانگیری نے، تہران میں یورپی یونین کا دفتر کھولے جانے کو ایجنڈے میں قرار دیئےجانے کی خبر دی ہے۔ البتہ یہ پہلی بار نہیں ہے کہ ہمارے ملک کے حکام ایران میں اس طرح کا دفتر کھولے جانے کی بات کر رہے ہیں۔ ایران اور گروپ پانچ جمع ایک کے درمیان مذاکرات کے موقع پر بھی یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کی سربراہ کے ساتھ وزرات خارجہ کے حکام کے مذاکرات میں، اس طرح کے دفتر کھولے جانے کی خبر دی گئی تھی۔
یورپی یونین کی حکمت عملی ہے کہ بتدریج ایران کے ساتھ تعاون، دونوں کے مشترکہ مفادات سے منسلک ہو اور یہ حکمت عملی، اختلافات کو حل کرنے میں سازگار ثابت ہو، یہی وجہ ہے کہ یورپی یونین ایران میں اپنا دفتر کھولنا چاہتا ہے۔ اسحاق جہانگیری نے کہا ہے کہ تہران، یورپ کا قابل اعتبار تجارتی شریک ہے اور یورپی یونین، ایران پر مکمل بھروسہ کر سکتی ہے۔ تہران میں یورپی یونین کے کمشنر برائے زراعت و دیہی ترقی، فل ہوگن سے بات چیت کرتے ہوئے ایران کے نائب صدر اسحاق جہانگیری کا کہنا تھا کہ ایران اور یورپی یونین کے درمیان تعاون کی بے تحاشہ گنجائش موجود ہے اور دونوں فریق نے مشترکہ تعاون کے بھاری بھر کم منصوبے تیار کر رکھے ہیں۔
ایران کے نائب صدر اسحاق جہانگیری نے جامع ایٹمی معاہدے کے بارے میں امریکہ اور خاص طور سے ٹرمپ انتظامیہ کے پیدا کردہ منفی ماحول کو ایران اور یورپی یونین کے رکن ملکوں کے درمیان تعاون کے میدان میں سب سے اہم رکاوٹ قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ ایران کو توقع ہے کہ یورپی یونین، جامع ایٹمی معاہدے کی خلاف ورزی کا ارادہ کرنے والوں کے خلاف ٹھوس موقف اختیار کرے گی۔ یہ خبر بھی امریکہ کی جانب سے ایٹمی معاہدے کی خلاف ورزیوں کے عروج پر ہونے کے وقت، امید افزا ہوسکتی ہے۔ ان سب کے باوجود ایران اور یورپ کے سابقہ تعلقات سے تو اسی امر کی نشاندہی ہوتی ہے کہ عام طور پر یورپی ممالک تہران کے ساتھ تعاون کے تعلق سے اپنے وعدے پر قائم نہیں رہتے ہیں۔
ان یورپی ملکوں نے، کہ جنہیں اسلامی انقلاب سے قبل، پہلوی حکومت سے بہت سی مراعات حاصل تھیں اور جو اسلامی انقلاب کے بعد سلب ہوگئیں، گذشتہ چار عشروں کے دوران اسلامی جمہوریہ ایران کو کمزور کرنے کی بہت زیادہ کوشش کی ہے ۔ ان کوششوں کی تازہ مثال ، ایران کے خلاف ہمہ جانبہ پابندی عائد کرنے کے لئے واشنگٹن کا ساتھ دینا تھا۔ ایک ایسا اقدام کہ جو ایٹمی معاہدے کے بعد ناکام ہوگیا۔ یورپی ملکوں نے اس سے قبل مسلط کردہ جنگ کے دوران بھی صدام حکومت کو ہتھیار فروخت کرنے کے ذریعے انقلاب ایران کے خلاف اقدامات انجام دیئے۔ آٹھ سالہ جنگ ختم ہونے اور سلمان رشدی کے خلاف امام خمینی (رح) کے فتوے کے بعد، یورپی ملکوں نے ہمارے ملک کے خلاف دباؤ بہت زیادہ بڑھا دیا۔
ایران کے ساتھ ایٹمی مذاکرات کے دوران بھی یورپ کے تین ملکوں نے بدعہدی کی۔ سن دوہزار ایک میں بھی ایران نے برطانیہ ، فرانس اور جرمنی کے ساتھ مذاکرات کا آغاز کیا کہ جو آخرکار امریکہ کی خلاف ورزیوں کے باعث کسی نتیجے تک نہیں پہنچا اور یورپیوں نے تہران کے رضاکارانہ اقدامات کے باوجود مذاکرات کو درھم برھم کردیا۔ باوجودیکہ ایران کے ساتھ ایٹمی مذاکرات کے لئے ایک بار پھر یورپ کے، گروپ پانچ جمع ایک ممالک ، مذاکرات کی میز پر لوٹ آئے اور کیتھرین اشٹین اور فیڈریکا موگرینی کے دورہ ایران کے ساتھ ہی انہوں نے تہران کے ساتھ اپنے روابط کو بحال کیا لیکن ایٹمی سمجھوتے پر دستخط کے بعد بھی، یورپی بینک بدستور ایران کے خلاف مالی پابندیاں جاری رکھے ہوئے ہیں اور یورپ میں بہت سے سرمایہ کار، امریکی بدعہدیوں اور خلاف ورزیوں کے خوف سے ایران کی منڈی میں داخل نہیں ہوئے ہیں اس طرح سے کہ یورپ کے ساتھ اقتصادی تعلقات یکطرفہ ہوگئے ہیں اور صرف یورپی ملکوں کی اشیاء کی درآمدات تک محدود ہوگئے ہیں۔
اب اس ماضی کے پیش نظر ایک بار پھر ایران اور یورپ اپنے تعلقات بہتر بنانے کے لیے کوشاں ہیں۔ ممکن ہے تہران میں یورپی یونین کا دفتر کھولا جانا، ان تعلقات میں بہتری کے لئے بنیادی حیثیت کا حامل قرار پائے۔ اس لئے اب اس طرح سے منصوبہ بندی کرنے کی ضرورت ہے تاکہ اگر یورپ ، ممکنہ طورپر ایک بار پھر اپنے موقف سے یو ٹرن لے اور واشنگٹن کی گود میں جا بیٹھے، تواس سے ہونے والے نقصان کی روک تھام کی جاسکے کیوں کہ بعید معلوم ہوتا ہے کہ ٹرمپ حکومت، ایران کے ساتھ یورپ کے بڑھتے ہوئے تعلقات کو برداشت کرسکے گی۔