ایران کی مخالفت میں نئی دھڑے بندیاں
خبری ذرائع نے رپورٹ میں کہا ہے کہ سعودی عرب نے عرب لیگ کے وزرائے خارجہ سے فوری اجلاس طلب کئے جانے کا مطالبہ کیا ہے۔ اس اجلاس کا انعقاد ریاض کی جانب سے علاقے میں ایران کی مداخلت کے بے بنیاد دعوے کا جائزہ لینے کے مقصد سے کیا جا رہا ہے۔
شہر ریاض کے ملک خالد ایئرپورٹ پر یمنی فوج اور عوامی رضاکار فورس کے حالیہ میزائل حملے کے بعد، سعودی عرب نے اپنے بے بنیاد دعووں کا اعادہ کرتے ہوئے ایران پر ، ریاض کے ملک خالد ایئر پورٹ پر میزائل داغے جانے کا الزام عائد کیا ہے۔ علاقے میں شام سے لے کر یمن ، لبنان اور عراق تک کی صورتحال پر نظر ڈالنے سے اس امر کی نشاندہی ہوتی ہے کہ سعودی عرب علاقے میں بحران پیدا کرنے کے ایک اصلی عامل میں تبدیل ہوگیا ہے۔ اور اس خطرناک کھیل میں وہ اس بات میں کوشاں ہے کہ عرب ممالک کو بھی اپنے پیدا کردہ بحران اور کشیدہ حالات میں الجھا دے۔
لیکن فتنہ وفساد کے اصلی سرچشمے کے طور پر سعودی عرب کے ساتھ بعض ملکوں کے ہمنوا و ہم صدا ہونے سے علاقے کی قوموں کو نقصان پہنچنے کے سوا اور کچھ ہاتھ نہیں آیا ہے۔ صدام کی مسلط کردہ جنگ کے زمانے میں سعودی عرب کی مرکزیت میں ایران مخالف خلیج فارس تعاون کونسل کی صف بندی کا تجربہ، یمن کے خلاف جنگ کی حمایت اور شام میں دہشت گرد گروہوں کی حمایت نیز قطر اور متحدہ عرب امارات کا تلخ تجربہ اور لبنان کے حالیہ واقعات، ان حقائق میں سے ہیں کہ جو صرف صیہونی حکومت کے فائدے میں رہے ہیں۔
آج رائے عامہ یہ جانتی ہے کہ علاقے میں امریکہ اورسعودی عرب کی ہم فکری کے نتیجے میں، نہ دہشت گردی کا خاتمہ ہوا ہے اور نہ ہی علاقے میں امن واپس لوٹا ہے۔ داعش نے بھی علاقے کو جنگ کی آگ میں جھونک دیا تاکہ امریکہ اور سعودی عرب بہتر طریقے سے مشرق وسطی کے نئے منصوبے کو، جیسا کہ وہ چاہتے ہیں، عملی جامہ پہنا سکیں۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ سعودی حکام اس بار بھی عرب ملکوں کو اکسا کر اس کوشش میں ہیں کہ بحران کا دائرہ وسیع کریں جبکہ امریکہ بھی اس اقدام کی حمایت کر رہا ہے۔
امریکہ کی خارجہ تعلقات کونسل کے سینئر تجزیہ نگار "ریٹکیا " کہتے ہیں کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی حکومت چاہتی ہے کہ ایران کے خلاف سعودی عرب کے مفادات کو آگے بڑھائے۔ اٹلی کے اخبار " ال جورنالہ" نے اپریل کے مہینے میں ایک رپورٹ میں لکھا تھا کہ یہ بات واضح ہے کہ تہران پر دہشت گردی کی حمایت کا لیبل چسپاں کرنے کا اب کوئی اعتبار نہیں رہا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایران نے ہمیشہ اپنی فورسز اور اپنے ذرائع اور وسائل کو، داعش اور القاعدہ جیسے دہشت گرد گروہوں سے مقابلے کے لئے استعمال کیا ہے۔
سعودی عرب، واشنگٹن کے ساتھ تعلقات کو مزید مستحکم کرنے کے درپے ہے تاکہ علاقے میں اپنی متزلزل پوزیشن کو باقی رکھ سکے- سعودی عرب نے اپنے اس مقصد کے حصول کے لئے دیگر سودمند معاہدوں سمیت سو ارب ڈالر سے زیادہ کے ہتھیاروں کی خریداری کے معاہدے پر دستخط کئے ہیں کہ جو مجموعی طور پر تین سو ارب ڈالر سے زیادہ ہیں- سعودی عرب ان اقدامات کی جو توجیہ پیش کر رہا ہے یہ ہے کہ اسلامی ملکوں اور مغرب کے درمیان دشمنی کا خاتمہ کرنا ہے تاکہ اس کے بقول انتہاپسندی اور جو ممالک دہشت گردی کی جڑ ہیں ان کا ہمیشہ کے لئے خاتمہ کردیا جائے- لیکن سوال یہ ہے کہ کیا سعودی عرب کو ہتھیار فروخت کرنا مشرق وسطی کی سلامتی کی ضمانت ہے-
جبکہ ان ہتھیاروں کو سعودی عرب، علاقے کے ملکوں پر قبضہ کرنے اور مظلوم و بے گناہ انسانوں کی جانیں لینے کے لئے استعمال کر رہا ہے کہ جس کی آشکارہ مثال یمن ہے- اس لئے یہ بات واضح ہے کہ علاقے میں بدامنی پھیلانے میں ریاض اور واشنگٹن کے مشترکہ کردار اور کارکردگی کے پیش نظر، امن وسلامتی قائم کرنے کا ان ملکوں کا دعوی بے معنی اور کھوکھلا ہے۔ ایران کے علاقائی کردار کا ربط دہشت گردی کی حمایت کے ساتھ جوڑنا درحقیقت ایران کے بارے میں امریکہ، اسرائیل اور سعودی عرب کی مشترکہ سوچ کا نتیجہ ہے۔
یہ ایسی حالت میں ہے کہ جب خطے کو بدامنی کا شکار بنانا، القاعدہ اور داعش جیسے دہشت گرد گروہوں کو وجود میں لانا، دہشت گرد گروہوں کی حمایت کرنا، عراق اور شام میں جنگیں شروع کرانا اور یمن کو تقسیم کرانے کے لئے اس ملک پر سعودی عرب سے حملہ کروانا مشرق وسطی سے متعلق امریکہ اور اسرائیل کے مشترکہ منصوبے کا حصہ ہے۔ البتہ ٹرمپ کے دور صدارت میں سعودی عرب کو زیادہ کردار دیئے جانے کی وجہ سے یہ چیز زیادہ نمایاں نظر آرہی ہے کہ امریکہ نے علاقائی اور عالمی حالات سے اقتصادی اور تجارتی فائدہ اٹھانے کے لئے اپنے اقدامات کا سلسلہ تیز کر دیا ہے۔
اس وقت بھی ریاض میں اقتدار کے بھوکے حکام اپنے عوام کو دھوکہ دینے والے بیانات کے ذریعےعرب لیگ کے ملکوں کے درمیان نیا اتحاد بنانے میں کوشاں ہیں ایسا اتحاد کہ جو کبھی بھی علاقے کے حقیقی خطرے اور اصلی دشمن یعنی اسرائیل کے مقابلے میں نمایاں اور موثر کردار ادا نہیں کرسکا ہے۔ یہ تمام حقائق اس بات پر دلیل ہیں کہ سعودی عرب امریکہ کی حمایت سے شیطنت کے مرکز میں تبدیل ہوگیا ہے، ایک ایسا شیطنت کا مرکز ہے جو علاقے کو، صیہونی غاصبوں کے اہداف کی بھینٹ چرھا رہا ہے۔