ایٹمی معاہدے سے متعلق امریکی خلاف ورزیوں کا سلسلہ جاری
ایٹمی معاہدے سے متعلق امریکی خلاف ورزیاں، ٹرمپ کے تازہ بیان کے بعد نئے مرحلے میں داخل ہوگئی ہیں۔
امریکی صدر ٹرمپ نے ایران اور گروپ پانچ جمع ایک کے درمیان طے شدہ معاہدے کے بارے میں امریکی وعدوں کی طرف کوئی اشارہ کئے بغیر اعلان کیا ہے کہ ایران سے تیل کی خریداری کی مقدار کم کی جاسکتی ہے۔ امریکی صدر ٹرمپ نے ایک بیان میں تاکید کی ہے کہ دیگر ممالک کی تیل اور تیل کی مصنوعات کی برآمدات اس حد تک ہیں کہ ایران سے تیل اور تیل کی مصنوعات کی خریداری میں نمایاں طور پر کمی کی جاسکتی ہے۔ امریکی صدر ٹرمپ نے سولہ نومبر کو ایک بیان میں اپنے ملک کے وزرائے خارجہ، توانائی اور خزانہ کو لکھا ہے کہ وہ دنیا کی معاشی صورت حال، بعض ملکوں کی جانب سے تیل کی پیداوار میں اضافے، دنیا میں توانائی کی پیداوار میں اضافے کی گنجائش اور امریکہ کے اسٹریٹیجک ذخائر کی مقدار کے بارے میں گہرائی کے ساتھ جائزہ لیں۔
امریکی وزیر داخلہ "ریان زنک" نے بھی حال ہی میں تہران سے واشنگٹن کی دشمنی کے تناظر میں اعلان کیا ہے کہ ایران کی تیل کی آمدنی میں کمی کا منصوبہ بنایا جا سکتا ہے۔ یہ ایسی حالت میں ہے کہ ایٹمی معاہدے کی بنیاد پر امریکہ اس بات کا پابند ہے کہ وہ ایران کے تیل کی فروخت میں کمی کے لئے کی جانے والی کوششوں کی روک تھام کرے اور تیل کی خریداری، حصول علم، تیل کی فروخت، نقل و حمل، پیٹروکیمیکل مصنوعات اور قدرتی گیس کے سلسلے میں پابندیوں کو معطل کرے۔ لیکن ٹرمپ جس طرح سے اپنے خیالات کا اظہار کر رہے ہیں وہ ایٹمی معاہدے میں، واشنگٹن کے اپنے وعدوں سے دوری اختیار کرنے کے مترادف ہے۔ یہی رویہ اس بات کا باعث بنا ہے کہ ایٹمی معاہدے کے بعد ایران کے اقتصادی مفادات کے بعض حصوں کی صورتحال، امریکی خلاف ورزیوں کے سبب، مبھم اور غیر واضح ہے۔
اس اقدام کی ایک مثال ایران کے ساتھ ہوئے تیل کے معاہدے پر عملدرآمد کو روکنے کے لئے فرانس کی ٹوٹل کمپنی پر دباؤ ڈالنا ہے۔ جیسا کہ فرانس کی ٹوٹل کمپنی کے سربراہ پیٹریک پویانہ نے حال ہی میں ایران کے خلاف امریکہ کی جانب سے نئی پابندیاں مسلط کئے جانے پر اپنی تشویش ظاہر کی ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ اگر امریکہ ایران کے خلاف نئی پابندیاں عائد کرے گا تو یہ کمپنی جنوبی پارس گیس فیلڈ کے معاہدے میں نظرثانی کرے گی۔ وا ضح رہے کہ ایران کی تیل کی قومی کمپنی اور فرانس کی تیل کی کمپنی ٹوٹل کے بین الاقوامی کنسورشیم نے گذشتہ جون کے مہینے میں، ایران کے ساؤتھ پارس گیس فیلڈ کے گیارہویں فیز میں توسیع کے سلسلے میں تہران میں چار ارب آٹھ سو ملین ڈالر کےمعاہدے پر دستخط کئے تھے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ اس طرح کی مخالفتوں کے پیچھے ٹرمپ کا سناریو ہے، جیسا کہ اس نے شروع سے ہی ایٹمی سمجھوتے کو بدترین معاہدے کا نام دیا ہے اور اس معاہدے سے نکل جانے میں کوشاں ہے۔ البتہ امریکہ کا رویہ کچھ ایسا ہے کہ وہ اپنے اقدامات کے ذریعے اس بات کے درپے ہے کہ ایران کو ایٹمی معاہدے سے پسپائی پر مجبور کردے تاکہ ایران، ایٹمی معاہدے سے نکلنے میں پہل کرے- امریکہ کا اصل مسئلہ، ایٹمی معاہدے کا اچھا یا برا ہونا نہیں ہے بلکہ امریکہ کی اصل مشکل اسلامی جمہوری نظام سے ہے- کیوں کہ اسلامی جمہوریہ ایران نے انقلاب کے آغاز سے ہی امریکہ کی توسیع پسندیوں کا کھل کر مقابلہ کیا ہے اور تسلط پسند نظام کے مقابلے میں ایران کی پائیداری و استقامت ایک نمونے میں تبدیل ہوگئی ہے-
اس وقت امریکہ کا ایک جنگ پسند گروہ، ایٹمی معاہدے سے توسیع پسندانہ مراعات حاصل کرنے کے مقصد سے بہانہ تراشی کے درپے ہے۔ البتہ امریکہ بد عہدی میں مشہور ہے اور اس بات کا امکان ہے کہ جیسا کہ وہ آب وہوا کی تبدیلی سے متعلق پیرس معاہدے سے نکل گیا ہے اسی طرح ایٹمی معاہدے سے نکل سکتا ہے- امریکہ نئے عالمی نظام کا دعویدار ہے، جبکہ آب و ہوا کے پیرس معاہدے سے خود کو الگ کرنے کے اپنے فیصلے کے ذریعے امریکہ نے یہ ثابت کردیا ہے کہ وہ کسی بھی بین الاقوامی قانون کے احترام کا قائل نہیں ہے- واضح رہے کہ ٹرمپ نے ایٹمی معاہدے کے خلاف ہمیشہ ہی زہر اگلا ہے اور وہ اس معاہدے کو ختم کرانے کی کوشش کرتے رہے ہیں حالانکہ انھیں اس سلسلے میں عالمی سطح پر تنقید کا سامنا کرنا پڑا ہے۔