بوکمال شہر کی آزادی کے ساتھ ہی، شام سے داعش دہشت گرد گروہ کا مکمل صفایا
شام اور عراق کی سرحد پر واقع البوکمال شہر، 19 نومبر کو مکمل طور پر شام کی فوج کے کنٹرول میں آگیا اور داعش دہشت گرد گروہ بیابانی علاقوں کی جانب فرار کر گئے۔ سرحدی شہر البوکمال کی آبادی ایک لاکھ بیس ہزار ہے یہ شہر تقریبا تین سال سے داعش دہشت گردوں کے قبضے میں تھا۔
سرحدی اور اسٹریٹیجک شہر البوکمال سے داعش کے خاتمے کے ساتھ ہی ، شام میں اب کھیل کا پانسہ پلٹ گیا ہے اور اب سعودی عرب، اسرائیل اور امریکہ، داعش اور دیگر دہشت گرد گروہوں کی مدد سے شام میں اپنے منصوبوں کو آگے نہیں بڑھا سکتے۔ داعش کو اس شکست کے ساتھ ہی شام میں سنگین شکست کا منھ دیکھنا پڑا ہے۔ شہر بوکمال شام میں آخری اہم شہری علاقہ تھا جو بدستور داعش کے قبضے میں تھا۔ داعشیوں کے اس علاقے سے انخلاء کا مطلب یہ ہے کہ شام سے مکمل طور پر داعش کا صفایا ہوگیا ہے۔
البوکمال شہر کی اسٹریٹیجک اہمیت اس لئے بھی ہے کہ یہ شہر شام کے دارالحکومت دمشق کو عراق کے سرحدی شہر القائم کے ذریعے عراقی دارالحکومت بغداد سے متصل کرتا ہے اور شام اور عراق کے درمیان تجارتی سامان کی منتقلی میں بھی اس شہر سے گذرنے والی شاہراہ اہم کردار ادا کرتی ہے اس کے علاوہ اس علاقے میں تیل کے عظیم ذخائر بھی موجود ہیں
البوکمال شہر پر شامی فوج کا کنٹرول ہو جانے سے عملی طور پرعراق اور شام کی مشترکہ سرحدیں شامی فوج کی نگرانی میں آگئی ہیں یا آجائیں گی- اس شہر کی اسی اسٹریٹیجک پوزیشن کی ہی وجہ سے پچھلے ایک مہینے کے دوران شامی فوج اور اس کے اتحادیوں اور دوسری جانب سے امریکا کی حمایت یافتہ کرد ملیشیا کے درمیان اس شہر پر کنٹرول کرنے کے لئے زبردست مقابلہ بھی شروع ہو گیا تھا لیکن سرانجام شامی فوج اور اس کے اتحادیوں نے اس شہر پر کنٹرول کر کے عملی طورپر امریکا کو شکست دے دی کیونکہ البوکمال پر داعش کا قبضہ برقرار رکھنے کے لئے امریکا نے داعش کی مدد کرنے میں کسی بھی کوشش سے دریغ نہیں کیا تھا-
سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی، حزب اللہ اور عوامی فورسز کی مدد سے داعش کو نابود کرنے میں شامی فوج کے مرکزی کردار کو کسی بھی صورت میں نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کیونکہ داعش اور اس کے مغربی اور عرب حامیوں نے جتنا ممکن ہو سکتا تھا عراق اور شام میں استقامتی محاذ کو ناکام بنانے کے لئے اپنی کوششیں انجام دیں۔ داعش کے حامی جانتے تھے کہ علاقے میں داعش کی موجودگی ان کے مفادات کی تکمیل کا اچھا ذریعہ ہے لیکن اب جبکہ داعش کے باقی بچے عناصر بھی البوکمال شہر کے اطراف کے جنگلوں میں پناہ لینے پر مجبور ہو گئے ہیں تو ان کے پاس اس کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں بچا ہے کہ یا تو ہتھیار ڈال دیں یا پھر وہ مرنے کے لئے تیار ہو جائیں-
سیاسی مسائل کے ماہر حسین کنعانی مقدم نے شام کے شہر بوکمال میں داعش کی سخت شکست کے بارے میں اور اس موضوع کے بارے میں کہ یہ کامیابی ایک طرح سے ایرانی قوم کی کامیابی اورعلاقے میں مزاحمتی محور کی کامیابی ہے کہا کہ بوکمال کا اسٹریٹجک علاقہ کہ جو عراق اور شام کےدرمیان نقطہ اتصال ہے داعش کا حکومتی مرکز تھا۔ اس طرح سے کہ اس گروہ کے جنگی ہتھیار اور سازوسامان اور زیادہ تر فوجی مراکز، اسی شہر میں موجود تھے اس وقت اس علاقے کی آزادی کے ساتھ ہی علاقے میں داعش کی جنگی مشنری کے ناکارہ ہونے کا ہم مشاہدہ کریں گے۔
امریکی اتحاد نے بہت زیادہ کوشش کی کہ داعشی عناصر بوکمال میں موجود رہیں لیکن امریکیوں کے اس حیلے اور منصوبے پر پانی پھرگیا۔ اسلامی جمہوریہ ایران کے فوجی مشیروں کی مدد اور مزاحمتی محاذ کی تقویت، انہیں لاجسٹیکی امداد پہنچانا ، ٹریننگ دینا اور سپاہ پاسداران کے توسط سے دیرالزور اور دیگر علاقوں پر میزائل حملے، اورسپاہ کے ڈرون حملے اور اسلامی جمہوریہ ایران کے حامی دھڑوں کے حملے، یہ سب داعش کی شکست اور بوکمال شہر کی آزادی میں بہت زیادہ تاثیر کے حامل تھے۔
کیوں کہ اگر اس طرح کا اتحاد نہ ہوتا تو شام اور عراق کے بہت سے علاقے داعش کے اختیار میں چلے جاتے۔ کنعانی مقدم نے اسلامی جمہوریہ ایران کے خلاف داعش کے اقدامات پر تاکید کرتے ہوئے کہا کہ دہشت گرد گروہ تقریبا چھ سال کے عرصے سے ایران کے مشرقی اور مغربی علاقوں سے ایران میں داخل ہونے کے درپے تھے تاکہ ایران میں خودکش حملوں اور نوجوانوں کو اس گروہ کا رکن بناکر ملک کو کشیدہ حالات سے دوچار کردیں تاہم ان کی یہ کوشش ناکامی سے دوچار ہوگئی اور ایران کی پارلیمنٹ پر حملے میں ان کی آخری امید بھی ختم ہوگئی۔ اس لئے کہ اسلامی جمہوریہ ایران میں داعش کو اپنے مذموم مقاصد کو عملی جامہ پہنانے میں منھ کی کھانی پڑی ہے۔