Nov ۲۰, ۲۰۱۷ ۱۷:۱۴ Asia/Tehran
  • تہران، ماسکو اور انقرہ، شام میں امن و استحکام کے قیام کی جانب قدم بہ قدم گامزن

آستانہ مذاکرات کے دائرے میں جاری سفارتی کوششوں کے ساتھ ہی، شام میں جنگ بندی کو ضمانت فراہم کرنے والے تین ملکوں ایران، روس اور ترکی کے وزرائے خارجہ کا اجلاس اتوار کو ترکی کے شہر انتالیا میں منعقد ہوا۔

 اس اجلاس کے انعقاد کا مقصد علاقے اور خاص طور پر شام کے حالات کا جائزہ لینا تھا۔ تینوں ملکوں کے وزرائے خارجہ کے اجلاس سے قبل ، ہفتے کو تہران میں ان ملکوں کے ماہرین کا اجلاس ہوا تھا۔ انقرہ سے موصولہ خبروں میں کہا گیا ہے کہ شام میں فائربندی کی ضمانت دینے والے تین ملکوں یعنی اسلامی جمہوریہ ایران کے وزیرخارجہ محمد جواد ظریف، ترکی کے وزیرخارجہ مولود چاووش اوغلو اور روس کے وزیرخارجہ سرگئی لاوروف نے شام سے متعلق آستانہ مذاکرات کے نتائج کا جائزہ لیا اور تین ملکوں کے سربراہی اجلاس کے ایجنڈے پر بھی تبادلہ خیال کیا۔

ایران روس اور ترکی کے صدور بدھ بائیس نومبر کو روس کے شہر سوچی میں سہ فریقی اجلاس کرنے والے ہیں۔  ایران، روس اور ترکی کے صدور کے اجلاس کےموقع پر ہی،  روس، ایران اور ترکی کی مسلح افواج کے چیف آف اسٹاف ، سہ فریقی دفاعی تعاون اور دہشت گردی کے خلاف آپریشن کے بارے میں تبادلہ خیال کریں گے۔ اس وقت آستانہ اجلاس کے دائرے میں جو معاہدے انجام پائے اور جواقدامات عمل میں لائے گئے ہیں ان سے شام میں سیاسی اور فوجی توازن تبدیل ہوگیا ہے۔ اس سلسلے میں سب سے اہم بات جو سامنے آئی ہے وہ یہ ہے کہ شام میں جھڑپوں اور انسانی جانوں کے ضیاع میں کمی آئی ہے۔

اس وقت پورے یقین کے ساتھ یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ شام کی حکومت اور مزاحمتی گروہوں میں اتنی توانائی اور صلاحیت پائی جاتی ہے کہ وہ داعش اور دیگر دہشت گرد گروہوں سے مقابلے پر زیادہ توجہ مرکوز کرسکتے ہیں۔ موجودہ حالات میں شام کی اہم ترین ضرورت جنیوا مذاکرات کے سلسلے میں سفارتی میکانیزم میں تیزی لانا ہے-  شام میں جنگ بندی کو ضمانت فراہم کرنے والے تین ملکوں کا مشترکہ ہدف ، اس مقصد کو آگے بڑھانے کے سلسلے میں حالات فراہم کرنا اور ایسی روشوں کا جائزہ لینا ہے جو شام کے عوام کے اتفاق رائے کے ساتھ ہی، شام میں قومی اتحاد اور ہم آہنگی کے ساتھ، بہتر مستقبل فراہم کرے۔ سوچی میں بدھ کو ہونے والا اجلاس اس نقطہ نگاہ سے، گذشتہ اقدامات کے تسلسل میں ہی ایک اور اہم قدم ہے کہ جو شام میں سیاسی استحکام کی جانب قدم بڑھانے کے لئے حالات سازگار بنا سکتا ہے۔

 اگرچہ اس راہ میں سخت و دشوار حالات درپیش ہیں۔ کیوں کہ اس عمل کوتبدیل کرنے کے لئے سعودی اقدامات جاری ہیں اور علاقے میں مزاحمتی محاذ کو کمزور کرنے کے لئے اسرائیلی سازشیں اور امریکی خلاف ورزیاں ختم نہیں ہوئی ہیں- دنیائے عرب کے سیاسی مسائل کے ماہر عبدالباری عطوان نے رای الیوم کے ساتھ انٹرویو میں کہا ہے کہ شام میں ایران کی قیادت میں مزاحمتی محور نے، امریکہ اور اس کے اتحادی ملکوں پرغلبہ پا لیا ہے اور ایران ، شام ، حزب اللہ اور روس نے شامی فوج کے ساتھ جنگ میں حصہ لیا ہے اور مالی، مادی ، معنوی اور انسانی لحاظ سے بہت زیادہ مدد اور جاں فشانی کی، جبکہ امریکہ شام کے عوام کے خلاف نبرد آزما تھا-

واشنگٹن نے گذشتہ سات برسوں کے دوران دو ارب ڈالر سے زیادہ کی رقم، شام کے مسلح مخالفین کو فراہم کی ہیں، لیکن علاقے میں دہشت گردی سے مقابلہ کرنے والے گروہوں کو آئے دن نئی کامیابیاں ملتی رہیں اور بوکمال اور دیرالزور شہروں کی داعش کے قبضے سے آزادی، ان عظیم کامیابیوں کی واضح علامت ہے۔ اس سلسلے میں تہران، ماسکو اور انقرہ کا کردار ناقابل انکار ہے اور اسی حقیقت نے لوگوں کی توجہ اس وقت سوچی اجلاس اور اس کے نتائج کی جانب مبذول کردی ہیں۔   

 

 

ٹیگس