Sep ۲۸, ۲۰۲۵ ۱۵:۰۰ Asia/Tehran
  • ایرانی ڈرون طیارے کا پوری دنیا میں ڈنکا ، ہر ایک اس کی نقل کرنے کی کوشش میں ، وال اسٹریٹ جرنل

امریکی جریدے وال اسٹریٹ جرنل نے لکھا ہے کہ ایرانی شاہد ڈرونز کے کم خرچے والے اور طویل رینج کی وجہ سے پوری دنیا میں ان کی نقل تیار کرنے کی لئے دوڑ مچی ہے تاہم مغرب اس دوڑ میں پیچھے رہ گیا ہے اور وہ فوری طور پر پیداوار بڑھانے میں مصروف ہے۔

 سحرنیوز/ایران: دہائیوں سے  دنیا بھر میں مسلح افواج  حملے کے لیے مہنگے میزائل استعمال کرتی  رہی ہیں جبکہ وسیع پیمانے پر بمباری کے لیے توپ خانے کا استعمال کیا جاتا تھا جو نسبتا سستا  ہوتا تھا لیکن اب، امریکہ اور اس کے اتحادی ایران کے تیار کردہ سستے اور طویل رینج والے ڈرونز "شاہد" کی نقل تیار کرنے  میں بری طرح سے مصروف ہیں۔

اندازوں کے مطابق، ہر"شاہد"  ڈرون طیارے کی قیمت محض دس ہزار ڈالر ہے اور یہ ایک ہزار میل سے زیادہ کا فاصلہ طے کر سکتا ہے۔ ایران میں ڈیزائن کیا گیا یہ ڈرون خاص طور پر فضائی دفاعی سسٹم پر قابو پانے میں مؤثر ثابت ہوا ہے۔

امریکی جریدے "وال اسٹریٹ جرنل" نے ایک مضمون میں لکھا کہ یوکرین جنگ نے یہ ثابت کر دیا کہ ڈرونز سستے اور درست دونوں ہو سکتے ہیں۔ روس باقاعدگی سے ایک ساتھ درجنوں "شاہد" ڈرون لانچ کرتا ہے جو اپنے ہدف سے  ٹکرانے کے بعد پھٹ جاتے ہیں۔ بعض اوقات میزائل بھی ڈرونز کی بوچھار کے بعد فائر کیے جاتے ہیں جس سے دفاعی نظام کو  دھوکا دینے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔

نیدرلینڈز کی رائل ایئر فورس  کے کمانڈر جنرل آندرے استور نے کہا کہ یوکرین جنگ نے سستے اور طویل رینج والے ڈرونز کی اہمیت کو واضح کیا ہے اور مغرب اس میدان میں مطلوبہ مقام پر نہیں ہے۔

استور نے کہا: "اگر آپ جنگ  شروع کرتے ہیں، تو آپ کو بہت زیادہ بہت بڑے سرمائے کی ضرورت ہوتی ہے۔ "

امریکی جریدے نے لکھا ہے کہ امریکہ، چین، فرانس، برطانیہ اور دیگر ممالک کی کمپنیاں "شاہد"  ڈرونز کی نقل تیار کرنے میں مصروف ہیں۔

یوکرین کم از کم دو سال سے روس پر طویل رینج والے ڈرونز سے حملے کر رہا ہے اور حال ہی میں اس نے ایک مثلثی شکل کا ڈرون استعمال کیا ہے جو بظاہر "شاہد" سے ملتا جلتا  ہے تاہم، تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ مغرب اس دوڑ میں کافی پیچھے ہے اور اسے مختلف چیلنجز کا سامنا ہے جن میں سے ایک زیادہ لاگت بھی ہے۔

ایران نے "شاہد "  ڈرونز پر کام کا آغازسن 2000 کے اوائل میں کیا تھا، جب اسے معلوم ہوا کہ مقبوضہ فلسطین اور جنوبی افریقہ میں اسی طرح کے طویل رینج والے ڈرونز تیار کیے جا رہے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق، اس وقت سے ایران نے مقبوضہ فلسطین پر حملے کے لیے اور مزاحمتی تحریکوں نے پورے مشرق وسطی میں اس ڈرون کا استعمال کیا ہے۔

وال اسٹریٹ جرنل نے بتایا ہے کہ روس نے سن 2022 کے آخر میں ایران کے ساتھ ان ڈرونز کی خریداری اور روس میں ان کی پیداوار کے معاہدے پر دستخط کرنے کے بعد شاہد ڈرونز کا استعمال شروع کر دیا ۔ اس وقت سے، روس نے یوکرین  کے اہداف کو نشانہ بنانے کے لئے ہزاروں شاہد ڈرونز فائر کئے ہيں۔

امریکی وزیر جنگ پیٹ ہیگسٹ نے جولائی میں ایک نوٹ  میں امریکہ میں ڈرون کی صنعت کو مضبوط بنانے اور امریکی فوجی یونٹس کو امریکی ساختہ اور کم خرچ والے ڈرونز سے لیس کرنے کی اپیل کی۔

رواں سال میں پینٹاگون میں منعقدہ ایک تقریب میں امریکی ساختہ ڈرونز کے 18  ماڈل نمائش کے لیے رکھے گئے۔ ان میں سے ایک "لوکاس" تھا، جو فینکس کی کمپنی اسپیکٹر ورکس  میں تیار کیا گيا تھا اورخاص بات یہ تھی کہ یہ ڈرون طیارہ ایران کے " شاہد" ڈرون طیارے سے ملتا جلتا ہے۔ سرکاری فنڈنگ حاصل کرنے والی اس کمپنی نے اس ڈرون کو " مناسب" اور کم منٹننس والا ڈرون طیارہ  قرار دیا ہے۔

گریفن ایرو اسپیس کی تیار کردہ طویل رینج کے ڈرون "اروہیڈ" کی بھی " شاہد "  کی طرح مثلثی شکل ہے۔ الاباما کی اس کمپنی کا کہنا ہے کہ یہ ڈرون بڑے  بڑے پیمانے پر تیار کئے جا سکتے ہيں اور اسے مختلف طریقوں سے لانچ کیا جا سکتا ہے۔

امریکی اخبار نے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے "شاہد"  ڈرون اور اس کی نقل میں تیار  ڈرون اس قدر مقبول ہو چکے ہیں کہ گریفن اور سویڈش کمپنی ساب سمیت کئی کمپنیاں اب نشانہ بازی کی تربیت کے لیے ایسے ڈرونز فروخت کر رہی ہیں جو ایرانی ہتھیاروں کی  نقل محسوس ہوتے ہیں۔ تاہم، مغرب میں تمام ڈرون سازوں کے لیے مہنگی افرادی قوت اور مواد ایک مسئلہ ہے۔

امریکی دفاعی کمپنی اینڈرل انڈسٹریز نے گزشتہ سال تائیوان کو اپنے 291 طویل رینج والے ڈرونز "الٹیوس" فروخت کیے ۔ یہ ایک ایسا معاہدہ ہے جس میں ہر ڈرون کی قیمت، ٹریننگ اور سپورٹ انفراسٹرکچر سمیت دس لاکھ ڈالر سے زیادہ تھی۔ اس کے برعکس، ماہرین کا کہنا ہے کہ روس "شاہد"  ڈرون کے انتہائی سادہ ماڈل کو محض 35,000 سے 60,000 ڈالر فی ڈرون کے حساب سے تیار کر سکتا ہے۔

برطانوی کمپنیوں اور حکومت کے ڈرون ڈیزائن کے مشیر اسٹیو رائٹ کے مطابق، شاہد  ڈرون کی مثلثی شکل اسے سستے میں تیار کرنے موثر  ہے کیونکہ اس میں ڈرون کی باڈی کے لئے سپورٹنگ ریبس کی ضرورت نہيں ہوتی۔

فائبر گلاس یا کاربن فائبر کی باڈی اور جیٹ انجن کے بجائے پروپیلر انجن کا استعمال لاگت کو کم رکھتا ہے تاہم کچھ مغربی ڈرون سازوں کا کہنا ہے کہ ان کے ڈرونز کی بہتر کارکردگی  کی وجہ سے زیادہ لاگت کا جواز ہے۔

برطانوی کمپنی ایم جی آئی انجینئرنگ نے کہا کہ ان کا طویل رینج والا ڈرون "اسکائی شارک" 280 میل فی گھنٹہ کی رفتار سے پرواز کر سکتا ہے جبکہ "شاہد-136 " کی رفتار تقریباً 115 میل فی گھنٹہ ہے۔ کمپنی کے بانی مائیک گاسکون نے کہا ہے کہ اس سے اسے نشانہ بنانا مشکل ہو جاتا ہے۔

گاسکون، کا کہنا ہے کہ "اگر اسکائی شارک ڈرونز اپنے ہدف کو دوگنی تعداد میں نشانہ بنائیں، تو اس سے اس کی مجموعی لاگت شاہد ڈرون سے کہیں کم ہو گی۔"

ایم جی آئی کمپنی نے اسکائی شارک ڈرون کی قیمت 50,000 سے 65,000 ڈالر کے درمیان بتائی ہے۔

وال اسٹریٹ جرنل کے مطابق، البتہ مغربی فوجوں کے پاس ڈرونز کے متبادل  ہتھیار موجود ہیں۔

ادھر امریکہ سستے میزائل تیار کرنے کے لیے کئی پروگرامز پر عمل کر رہا ہے لیکن کچھ فوجی ماہرین  کے مطابق  یوکرین میں روس کی طرف سے شاہد ڈرونز کے استعمال سے   یہ ثابت  ہو گيا کہ مغرب کو اپنے  آپشنز بڑھانے کی ضرورت ہے کیونکہ ہر میزائل کی قیمت دس لاکھ ڈالر سے زیادہ ہے اور اسے تیار ہونے میں ایک سال سے زیادہ کا وقت لگتا ہے۔

کارنیل یونیورسٹی کے کارنیل بروکس انسٹی ٹیوٹ فار ٹیکنالوجی پالیسی کے ڈرون ماہر جیمز پیٹن روگرز نے کہا کہ ایئر ڈیفنس سسٹموں  کو تھکانے کے لیے روس کے بڑے پیمانے پر تیار کردہ ڈرونز کے استعمال نے "کھیل کا پانسا ہی پلٹ دیا ہے۔"

روگرز نے کہا: "درست، سستے اور طویل رینج والے حملے پر قادر ڈرون بین الاقوامی سلامتی کے لیے سنگین خطرات میں شامل ہیں۔"

ٹیگس