میانمار پر بنگلادیش کے صدر کی تنقید
بنگلادیش کے صدر نے روہنگیا مسلمانوں پر میانمار کی فوج کے تشدد پر تنقید کی ہے۔
بنگلادیش کے صدر محمد عبدالحمید نے ڈھاکا میں کیتھولیک عیسائی رہنما پوپ فرانسس سے ملاقات میں کہا کہ میانمار میں ہزاروں روہنگیا مسلمان اور عورتوں کو اس ملک کی فوج اور انتہاپسند بدھسٹوں کے ہاتھوں نہایت سفاکی سے قتل کیا جا رہا ہے - بنگلادیش کے صدر کا کہنا ہے کہ روہنگیا مسلمانوں کے خلاف میانمار کی فوج کے جرائم میں ہزاروں عورتوں کو جنسی جرائم کا نشانہ بنانا شامل ہے اس کے ساتھ ساتھ صوبہ راخین میں بے گھر افراد کے گھروں کو نذرآتش کردیا گیا ہے- بنگلادیش کے صدر نے مطالبہ کیا کہ عالمی برادری روہنگیا مسلمانوں کی وطن واپسی میں مدد کرے- پوپ فرانسس کا دورہ میانمار و بنگلادیش ، ہیومن رائٹس واچ کی وہ رپورٹ سامنے آنے کے بعد انجام پایا ہے جس میں میانمار کی فوج اور بدھسٹوں کے ہاتھوں روہنگیا مسلمانوں کی نسل کشی اور ان کے جرائم کے بارے میں بہت سے ثبوت اور دستاویزات پیش کی گئی ہیں- گذشتہ ہفتوں میں یورپ کے سیاسی و مذہبی حکام نے نام نہاد انسانی ہمدردی کے جذبات کے تحت میانمار و بنگلادیش کا دورہ کیا تھا اور روہنگیا مسلمانوں کے کیمپوں کا بھی نزدیک سے جائزہ لیا تھا لیکن انھوں نے اپنے بیانات میں نہ صرف یہ کہ میانمارحکومت کو نسل کشی اور جنگی جرائم کا ذمہ دار نہیں ٹھہرایا بلکہ اس کے مقابلے میں حکومت بنگلادیش کی جانب سے پناہ گزینوں کی صورت حال کا جائزہ لیے جانے کی درخواست کے سلسلے میں خاموشی اختیار کرکے میانمار حکومت اور فوج کو مسلمانوں کے خلاف مزید جرائم کا ارتکاب جاری رکھنے کی ترغیب دلائی- یہ ایسی حالت میں ہے کہ حکومت میانمار اور فوج کے مظالم کو روکنے کے لئے عالمی برادری کے عملی اقدام کی ضرورت ہے-
انسانی حقوق کے سلسلے میں اقوام متحدہ کی خصوصی رپورٹر یانگ ہیلی نے حکومت میانمار کے اس دعوے کو کہ روہنگیا مسلمانوں نے اپنے گھروں کو خود آگ لگائی ہے، پوری طرح غلط قرار دیا اور کہا کہ میانمار کی پولیس نے دیہی مسلمانوں پر حملہ اور انھیں زدوکوب کرکے انسانی حقوق کی خلاف ورزی کی ہے کہ جس کا سلسلہ بند ہونا چاہئے-
مغربی حلقوں کا خیال ہے کہ میانمار حکومت روہنگیا مسلمانوں کو ان کے گھروں سے نکال باہر کرنے میں کامیاب رہی ہے اور اس وقت صوبہ راخین کہ جو روہنگیا مسلمانوں کا آبائی وطن ہے، کے حالات سرمایہ کاری کے لئے پوری طرح سازگارہیں- اس کا مطلب یہ ہے کہ حکومت میانمار اپنے اقتصادی پروجیکٹ ان علاقوں میں لگانا چاہتی ہے جن کے مالک روہنگیا مسلمان ہیں تاہم وہ ان کا قتل عام اور انھیں جلاوطن کرکے صوبہ راخین سے مسلمانوں کو پوری طرح ختم کرنا چاہتی ہے اور مغربی ممالک بھی یہ چاہتے ہیں اور اس کا بھرپور خیرمقدم کررہے ہیں- بین الاقوامی امور کے ماہر فیل رابرٹسن کا کہنا ہے کہ روہنگیا مسلمانوں پر شدید حملے ہو رہے ہیں- حکومت میانمار کو چاہئے کہ وہ ان حملوں کو فورا روک دے- اگر ان تشدد کی وجوہات واضح نہ ہوں گی تو حالات مزید بدتر ہوجائیں گے- بہرحال بنگلادیش کے صدر نے ایسے عالم میں میانمار کی فوج اور حکومت کی جانب سے روہنگیا مسلمانوں کا قتل عام جاری رہنے پر تنقید کی ہے کہ عالمی احتجاج کے باوجود یہ سلسلہ بدستور جاری ہے اور حکومت میانمار صوبہ راخین سے مسلمانوں کے صفائے اور ان کی نسل کشی کا کام مکمل کرنے کی کوشش میں ہے اور جو دورے صرف تصویریں کھنچوانے کے لئے انجام پاتے ہیں ان سے روہنگیا مسلمانوں کے مسائل کی گتھیاں حل نہیں ہو سکتیں اور اسی حقیقت کو سمجھ کر بنگلادیش کے حکام نے احتجاج کیا ہے اور عالمی برادری سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ روہنگیا مسلمانوں کی وطن واپسی کے لئے اقدام کرے-