بیت المقدس کے بارے میں ٹرمپ کی پالیسیوں پر اسلامی تعاون تنظیم کا ردعمل
اسلامی تعاون تنظیم نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو، بیت المقدس کو سرکاری طور پر صیہونی حکومت کا دارالحکومت تسلیم کرنے کی بابت خبردار کیا ہے۔
اسلامی تعاون تنظیم نے پیر کے روزایک بیان میں کہا ہے کہ مقبوضہ بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت قرار دینے کا امریکی اقدام، عرب اور مسلم ممالک کے خلاف آشکارہ جارحیت اور حملہ تصور کیا جائے گا۔ او آئی سی کی جانب سے جاری کیے گئے بیان میں کہا گیا ہے کہ امریکی صدرٹرمپ کی جانب سے مقبوضہ بیت المقدس کو ممکنہ طور پر اسرائیلی دارالحکومت قرار دینے کی صورت میں اسلامی تعاون تنظیم مسلم ممالک کا اجلاس طلب کرے گی۔ اسلامی تعاون تنظیم نے مزید کہا ہے کہ اس تنظیم کے تمام ممبر ممالک کو چاہئے کہ وہ ہر اس ملک کا بائیکاٹ کریں جو اپنا سفارتخانہ بیت المقدس منتقل کریں۔
گذشتہ ہفتے امریکہ کے نائب صدر مائیک پینس نے اعلان کیا تھا کہ امریکی صدر ٹرمپ آئندہ دنوں میں مقبوضہ بیت المقدس کو، سرکاری طور پر صیہونی حکومت کا دارالحکومت اعلان کرسکتے ہیں۔ یہ ایسی حالت میں ہے کہ وائٹ ہاؤس نے پیر کی رات کو آخرکار عالمی دباؤ کے سامنے ہتھیار ڈالتے ہوئے کہا ہے کہ اسرائیلی دارالحکومت کے حوالے سے فیصلہ وقت آنے پر کیا جائے گا۔وائٹ ہاؤس کی جانب سے جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ امریکا نے اسرائیل میں اپنے سفارتخانے کی منتقلی سے متعلق فیصلہ مؤخر کر دیا ہے۔ وائٹ ہاؤس کے ترجمان کا کہنا ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اس حوالے سے بالکل کلیئر ہیں اور اس معاملے پر فیصلہ وقت آنے پر کریں گے۔
بعض خبروں سے بھی اس امر کی نشاندہی ہوتی ہے کہ اس سلسلے میں ٹرمپ کا فیصلہ ملتوی ہو گیا ہے۔ امریکی حکومت کے موقف میں یہ گھماؤ پھراؤ کسی حد تک امریکی حکومت کے اپنے مواقف سے پسپائی کے مترادف ہے۔ یہ ایسے میں ہے کہ ٹرمپ نے امریکہ میں انتخابی مہم کے دوران اور اس کے بعد بھی بارہا صیہونی حکومت کے وزیراعظم بنیامین نتن یاہو کو وعدہ دیا تھا کہ وہ امریکی سفارتخانے کو تل ابیب سے مقبوضہ بیت المقدس منتقل کردیں گے۔ تل ابیب سے امریکی سفارتخانے کو مقبوضہ بیت المقدس کے علاقوں میں منتقل کئے جانے کے ، امریکہ کے پینتالیسویں صدر ٹرمپ کے اصرار نے، ٹرمپ کو صیہونیوں کے لئے وائٹ ہاؤس کے ایک محبوب ترین فرد میں تبدیل کردیا ہے-
یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جو ٹرمپ کی انتخابی مہم کا ایک نعرہ بھی شمار ہوتا ہے اور فروری 2017 سے ، جب سے ٹرمپ نے پینتالیسیویں امریکی صدرکی حیثیت سے وائٹ ہاؤس میں قدم رکھا ہے، اسے اپنی خارجہ پالیسی کے ایجنڈے میں قرار دے رکھا ہے لیکن ہر مرتبہ مختلف وجوہات کی بناء پر ان کا یہ منصوبہ عملی جامہ نہیں پہن سکا۔ امریکی سفارتخانے کی بیت المقدس منتقلی کا منصوبہ، کہ جس کی، 1995 میں امریکی کانگریس میں منظوری دی گئی تھی، گذشتہ برسوں کے دوران مختلف وجوہات منجملہ عالمی برادری کے ردعمل اور سفارتی نتائج کے خوف سے، کہ جو ممکن ہے امریکہ کے لئے نقصان دہ ثابت ہو، ایک بار بیل کلنٹن، جارج بش اور بارک اوباما کی حکومتوں کے دور میں ملتوی کردیا گیا۔ اور یقینا ٹرمپ کی جانب سے بھی اس سلسلے میں کسی طرح کی غلطی، ان کو ٹھوس خطروں سے دوچار کردے گی۔
اگرچہ امریکی سفارتخانے اور بیت المقدس کی صورتحال کے تعلق سے امریکی صدر کا حتمی نظریہ سامنے نہیں آیا ہے لیکن اس کے خلاف ردعمل کا آغاز ہوگیا ہے اور اس وقت اس میں تیزی آئی ہے۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے اکثریت آراء کے ساتھ ایک قرارداد پاس کی جس میں اسرائیل کو شہر بیت المقدس کے غاصب کے طور پر متعارف کرایا گیا ہے اس قرارداد کی بنیاد پر اسرائیل کا بیت المقدس سے کوئی ربط نہیں ہے اس صورت میں یہ یہودی حکومت جو بھی قدم اٹھائے گی وہ غیر قانونی اور باطل ہوگا۔ ڈونالڈ ٹرمپ امریکی سفارتخانے کو تل ابیب سے بیت المقدس منتقل کرنے کی رٹ ایسے میں لگائے ہوئے ہیں کہ اقوام متحدہ کی قرادادوں منجملہ قرارداد چار سو اٹہتر میں کہا گیا ہے کہ اسرائیل بیت المقدس میں کسی بھی طرح کے خود سرانہ اقدام نہیں کرسکتا اور عالمی برادری سے یہ اپیل کی گئی ہے کہ بیت المقدس میں صیہونی حکومت کی پالیسیوں کا ساتھ نہ دیں۔
واضح رہے کہ بیت المقدس فلسطینیوں اور عالم اسلام کے لئے نہایت اہمیت کا حامل ہے اور اس مسئلے پر شدید حساسیت پائی جاتی ہے۔ بیت المقدس میں امریکہ کی جانب سے صیہونی حکومت کی کسی بھی توسیع پسندانہ پالیسی کی ہمراہی کرنا امریکہ کے لئے سیاسی خود کشی کے مترادف ہوگا اور اس سے ٹرمپ کے سامنے ان کی متنازعہ داخلی اور خارجہ پالیسیوں کی وجہ سے مزید چیلنجز کھڑے ہوجائیں گے اور ان پر جاری تنقیدوں میں اضافہ ہوجائے گا اور راکھ کے نیچے دبی اس آگ کو بھڑکا کر امریکہ کے خلاف غصے اور نفرت کے جذبات برانگیختہ کردے گی جن کے بارے میں کوئی پیشین گوئی نہیں کی جاسکتی۔
ان ہی حقائق کے پیش نظر امریکہ کی حکومتوں نے اب تک کانگریس کی مکرر درخواستوں کے باوجود اپنے سفارتخانے کو تل ابیب سے بیت المقدس منتقل کرنے سے پرہیز کیا ہے لیکن امریکہ کے صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے اب اس ریڈلائن کو کراس کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور وہ کانگریس کے اس قانون پر عمل کرنے کے لئے تیار نظر آتے ہیں کہ امریکہ کا سفارتخانہ تل ابیب سے بیت المقدس منتقل کردیا جائے - مجموعی طور پر غاصب صیہونی حکومت کو مستحکم کرنے کے لئے، اسرائیل کا ساتھ دینے کے امریکی اقدامات کا اسلامی ملکوں کے سفارتی ردعمل سمیت مختلف ردعمل کا سامنا کرنا پڑے گا کہ جس کے نتیجے میں عالمی سطح پر امریکہ الگ تھلگ پڑجائے گا۔