Dec ۱۰, ۲۰۱۷ ۱۸:۳۴ Asia/Tehran
  • داعش پر عراق کی حتمی کامیابی کا اعلان

علاقے میں داعش کے خلاف حاصل ہونے والی کامیابیوں کا سلسلہ جاری ہے اور شام میں داعش کی مکمل شکست کے اعلان کے کچھ دنوں بعد اب عراق سے بھی خبریں موصول ہو رہی ہیں کہ اس ملک سے بھی داعش کا مکمل صفایا ہوگیا ہے اور اسے داعش کے خلاف حتمی کامیابی مل گئی ہے-

عراقی وزیر اعظم حیدر العبادی نے کہا ہے کہ عظیم کامیابی، اتحاد کا تحفظ اورعراق کی ارضی سالمیت کا تحفظ نیز ملک کو تقسیم ہونے سے بچالینا ہے اور یہ مسئلہ داعش کے بعد عراق کے دشمنوں کی سازشوں کے تعلق سے عراقی حکام کی خصوصی توجہ کا غماز ہے۔ عراق میں داعش کے خلاف حتمی کامیابی کا اعلان، دہشت گردی کے خلاف جنگ میں عراقیوں کو حاصل ہونے والی کامیابیوں کا ایک زریں باب شمار ہوتا ہے۔ عوام، فوج اور حکومت کا مشترکہ تعاون، داعش کو کمزور کرنے اور اسے عراق سے نابود کرنے میں تقدیر ساز اہمیت کا حامل ہے۔

یہ ایسی حالت میں ہے کہ دہشت گردوں کے حامی یعنی سعودی عرب کی قیادت میں بعض عرب حکام اور امریکہ کی سرکردگی میں بعض مغربی ممالک اور صیہونی حکومت نے دہشت گردوں کو جنم دیا ہے اور اب وہ غیر یقنی کی حالت میں علاقے میں اپنے عوامل اور ایجنٹوں کی شکست کا یکے بعد دیگرے مشاہدہ کر رہے ہیں۔ داعش دہشت گرد گروہ نے  2014 میں امریکہ اور مغربی اور عرب اتحادیوں منجملہ سعودی عرب کی مالی اور فوجی حمایت سے عراق پر حملہ کیا اور اس ملک کے شمالی اور مغربی علاقوں کے وسیع حصے پر قبضہ کرلیا اور وہاں بہت زیادہ جارحانہ کاروائیاں انجام دیں۔

اس وقت سے اب تک عراقی فوج نے اس ملک کے عوام اور ان علاقوں کے دیگر حمایتی گروہوں کی مدد و حمایت سے داعش کے زیر قبضہ علاقوں کو آزاد کرالیا اور عملی طور پر عراق میں اس دہشت گرد گروہ کا کام تمام کردیا ہے۔ عراق میں داعش کی شکست کے ساتھ ہی ان کے حامی ممالک ، خاص طور پر امریکہ ، کہ جو عراق میں اپنی پوزیشن کھوچکا ہے، اب ایک بار پھر داعش کے بعد کے مرحلے میں عراق میں اپنے منصوبوں کو آگے بڑھانے کے لئے ہاتھ پیر مار رہا ہے اور نئے پروپگنڈے کر رہا ہے۔ داعش نے اپنی ناکامیوں پر پردہ ڈالنے اور عراق و شام کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کے لئے لوگوں کے قتل اور فساد و بربادی کو اپنے ایجنڈے میں قرار دے رکھا ہے۔ 

علاقے میں دہشت گردوں کی نئی سازشوں کو امریکی حمایت حاصل ہے اور امریکہ کی سرکردگی میں دہشت گردی سے مقابلے کے لئے تشکیل پانے والا نام نہاد اتحاد، ماضی کی طرح ابھی بھی شام اورعراق میں اپنے اقدامات جاری رکھے ہوئے ہے۔ امریکی حکام کہ جو عراق میں اپنے منصوبوں کو ناکام ہوتا ہوا دیکھ رہے ہیں اس وقت علاقے میں ایک اور سازش تیار کرنے میں مصروف ہیں اور امریکہ ، عرب حکام اور صیہونی حکومت کے توسط سے بیت المقدس کے خلاف فتنہ برپا کرنا اسی تناظر میں قابل غور ہے۔

درحقیقت ٹرمپ جن کو عراق اور شام میں اپنے منصوبوں کو عملی جامہ پہنانے میں ناکامی کا منھ دیکھنا پڑا ہے اب اپنی ناکامیوں پر پردہ ڈالنے کے لئے مختلف راستوں سے اپنی پالیسیوں کو آگے بڑھانے کے درپے ہیں اور انہوں نے امریکی سفارتخانے کو تل ابیب سے بیت المقدس منتقل کرنے اور قدس کو صیہونی حکومت کا دارالحکومت تسلیم کرنے کا متنازعہ مسئلہ چھیڑ دیا ہے۔ لیکن ٹرمپ کی خارجہ پالیسی میں پے در پے غلطیاں، امریکہ کے لئے خطرناک نتائج کی حامل ہوں گی جو عراق اور شام میں ٹرمپ کو حاصل کو ہونے والی ناکامیوں سے کم نہیں ہوں گی اور جو امریکہ کی علاقائی پالیسی میں تابوت کی آخری کیل کے مترادف ہوں گی۔

امریکی صدر کے توسط سے امریکی سفارتخانے کو بیت المقدس منتقل کرنے کے فیصلے کے خلاف پوری دنیا سراپا احتجاج ہے جس سے اس امر کی نشاندہی ہوتی ہے کہ ٹرمپ کے اقدامات کے سبب، امریکہ کو نفرت میں مزید اضافے کے سوا اور کچھ حاصل نہیں ہوگا اور عراق سمیت دنیا کے بیشتر ملکوں میں جاری احتجاج اسی تناظر میں قابل غور ہے۔ یہی سبب ہے کہ عراقی وزیر اعظم حیدر العبادی نے امریکہ کے حالیہ اقدام پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ کوئی بھی قدس کے تشخص کو مٹا نہیں سکتا۔ 

واضح رہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے علاقائی اور عالمی سطح کی مخالفتوں کی پروا کئے بغیر اعلان کیا کہ امریکا بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرتا ہے اور واشنگٹن اپنا سفارتخانہ تل ابیب سے بیت المقدس منتقل کرےگا۔ ٹرمپ نے امریکی وزارت خارجہ سے کہا کہ وہ امریکی سفارتخانہ تل ابیب سے بیت المقدس منتقل کرنے کی تیاری شروع کردے۔ بیت المقدس جہاں مسلمانوں کا قبلہ اول واقع ہے فلسطین کا اٹوٹ حصہ ہے اور یہ شہر مسلمانوں کے تین انتہائی مقدس مقامات میں سے ایک ہے۔ بیت المقدس انیس سو سڑسٹھ سے اسرائیل کے غیرقانونی قبضے میں ہے۔

ٹیگس