ایران اور روس کے اسٹریٹیجک تعلقات
اسلامی جمہوریہ ایران کے وزیر دفاع جنرل امیر حاتمی مستقبل میں ایران اور روس کے تعلقات نیز دونوں ملکوں کے فوجی تعلقات میں توسیع کے لئے دونوں ملکوں کے درمیان پائی جانے والی باہمی دلچسپی کے بارے میں کہتے ہیں، ایران اور روس کے تعلقات اسٹریٹیجک ہیں اور وہ فوجی پہلوؤں کے حامل ہونے کے علاوہ ، اقتصادی اور سیاسی پہلوؤں کے بھی حامل ہیں-
ایران کے وزیر دفاع جنرل امیر حاتمی نے تسنیم نیوز ایجنسی سے کرتے ہوئے کہا کہ جب دونوں ملکوں کے درمیان اسٹریٹیجک تعلقات پائے جاتے ہیں تو دونوں فریق کے سامنے ایک روشن افق ہوگا۔
ایران اور روس کے تعلقات میں ایک اہم معیار، علاقائی اور بین الاقوامی مسائل میں مشترکہ مواقف کا پایا جانا ہے اور یہ خصوصیت، اسٹریٹیجک سطح پر تعلقات کے وجود میں آنے میں نمایاں کردار کی حامل ہے۔ اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر حسن روحانی نے گذشتہ نومبر کے مہینے میں تہران میں روسی صدر کے ساتھ ملاقات میں ، روس کو ایک دوست، پڑوسی اور ایران کا اسٹریٹیجک شریک اور بڑا ملک قرار دیا اور کہا کہ تہران ، ماسکو کے ساتھ باہمی تعاون اور ہمہ جانبہ تعلقات کی توسیع اور تقویت میں پرعزم ہے۔
روسی صدر نے بھی اس امر پر تاکید کرتے ہوئے کہ ایران بھی روس کا اسٹریٹیجک شریک اور پڑوسی ملک ہے کہا تھا کہ دونوں ملک، تعلقات کے فروغ اور دوطرفہ تعاون کی توسیع میں بہت سے مشترکہ مفادات رکھتے ہیں۔
ایران اور روس کے صدورکا مشترکہ بیان بھی کہ جو "جامع اسٹریٹیجک تعاون کی جانب پیشقدمی" کے عنوان سے شائع ہوا ، اسی نکتے کا غماز ہے۔
ایران اور روس نے ان تعلقات کے اس وقت مفید اور موثر ہونے کو اسٹریٹیجک مسائل میں ثابت کردیا ہے۔ بالفاظ دیگر کہا جا سکتا ہے کہ دونوں ملکوں کے تعلقات، گہری اسٹریٹجی کے حامل ہیں اس بناء پر سیکورٹی اور فوجی تعاون میں توسیع میں دلچسپی ایک فطری امر ہے۔ اسلامی جمہوریہ ایران اور روس کے درمیان ایسے وسیع تعلقات ہیں کہ جو علاقے کی سیکورٹی کے لئے بھی اہم اور اسٹریٹیجک شمار ہوتے ہیں- یہ تعاون، اب دونوں ممالک کے تعلقات کے سب سے اہم اور حساس مسائل میں سے ایک ہے۔
ایران اور روس کے مشترکہ نظریات نے اس وقت مشترکہ فوجی اسٹریٹیجی اور سیکورٹی کے شعبوں میں ان دونوں ملکوں کے درمیان تعاون کے لئے مناسب حالات فراہم کئے ہیں۔ اسی دائرے میں ایران اور روس نے شام میں داعش سے مقابلے میں، علاقے میں امن و استحکام کے تحفظ کے لئے اپنی اور علاقے کے ملکوں کی صلاحیتوں سے بخوبی استفادہ کیا ہے۔ ایران اور روس نے ثابت کر دکھایا ہے کہ سیکورٹی اور علاقے کے بحرانوں کے حل میں امریکہ کی بالا دستی اور اس کی ہٹ دھرمی کا مقابلہ کرنے سے پیچھے ہٹنے والے نہیں ہیں۔
ایٹمی مذاکرات شروع ہونے کے بعد ایران اور روس کے سیاسی و اسٹریٹیجک تعلقات میں نشیب و فراز آتے رہے- اسی زمانے میں روس نے معاہدے کے باوجود ایران کو ایس تھری ہنڈریڈ دفاعی میزائلی سسٹم دینے سے انکار کر دیا اس کے باوجود مشترکہ مفادات کے پیش نظر سیاسی، اقتصادی میدانوں اور علاقے کی سیکورٹی کے امور میں ایران اور روس کے تعلقات میں فروغ آتا رہا-
عراق و شام میں داعش دہشت گرد گروہ کے خطرات کا دائرہ بڑھنے کے باعث مغرب نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں علاقے کی کمزور کارکردگی سے فائدہ اٹھایا - ان حالات میں علاقے کی صورت حال دونوں ملکوں کے تعلقات میں نزدیکی پیدا ہونے کا سبب بنی - ماہرین کا خیال ہے کہ شام کے سلسلے میں ایران اور روس کا تعاون بھی یقینا وقتی ضرورت کا نہیں ہو سکتا-
حقیقت یہ ہے کہ مغرب کے خطرات کے بعد روس کے اندر بھی ایران کے ساتھ قریبی تعلقات کے لئے محرکات بڑھ گئے ہیں- اس کے علاوہ مغرب کی پابندیوں سے روس کو اقتصادی جھٹکا بھی لگا ہے لہذا پابندیوں کے اثرات کم کرنے کی ضرورت نے بھی روس کو، ایران کے ساتھ تعلقات کی سطح بڑھانے کی طرف مائل کیا ہے- درحقیقت پابندیاں ایسا خطرہ ہیں کہ ایران اور روس کے تعلقات ایک طرح سے موقع میں تبدیل ہوگئے ہیں- اس بنا پر علاقے میں پایدار امن و استحکام کے قیام کے لئے دونوں ملکوں میں موجود صلاحیتوں سے استفادہ کیا جانا چاہئے-
سیکورٹی اور انرجی کی برآمدات بھی ایران اور روس کے تعلقات کے اسٹریٹیجک مسائل میں سے ہیں- علاقے میں انرجی کی پائپ لائنیں ، سڑکوں کا نظام اور شاہراہ ریشم ، نیز بحری ، زمینی اور ریلوے کے شعبوں میں تعاون، پرامن ہونا چاہئے- اس سلسلے میں روس ، ایران اور علاقے کے ممالک شانگھائی تعاون تنظیم اور ای سی او جیسے اداروں نیز بحیرہ خزر کے ممالک کے دائرے میں مناسب سیکورٹی و سیاسی تعاون کر سکتے ہیں- بہرحال ایران اور روس کے تعلقات کی بنیاد، مستقبل کو مد نظر رکھتے ہوئے رکھی گئی ہے اور توقع ہے کہ ان تعلقات میں نہایت تیزی سے فروغ آئے گا-