Dec ۱۰, ۲۰۱۷ ۱۸:۳۸ Asia/Tehran
  • برطانیہ کے وزیر خارجہ کا دورہ تہران

برطانیہ کے وزیر خارجہ بوریس جانسن نے اپنے دورہ تہران میں، جہاں علاقے کی تبدیلیوں میں ایران کے مثبت کردار کا اعتراف کیا ہے وہیں ساتھ ہی لندن کی بعض غلطیوں کو بھی تسلیم کیا ہے منجملہ یہ کہ برطانیہ نے علاقے میں حکومتوں کو ختم کرنے میں غلطیاں کی ہیں۔

بوریس جانسن اپنے اس دورہ تہران میں کوشش کی ہے کہ اس کے بعد متحدہ عرب امارات جانے سے قبل، ایران کے ساتھ تعلقات کی سطح بلند کریں، ایک ایسے ملک کے ساتھ کہ جس نے علاقے کی بڑی طاقت کی حیثیت سے داعش کو ختم کرنے کے ساتھ ہی اپنے تمام حریفوں پر اپنی دفاعی صلاحیت ثابت کردی ہے- در ایں اثنا اس دورے میں ان کو ہمارے ملک کے بعض حکام کی تنقیدوں کا بھی سامنا کرنا پڑا ہے۔ چنانچہ ایران کی مجلس شورائے اسلامی کے اسپیکر ڈاکٹر علی لاریجانی نے تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ایٹمی معاہدے کے بعد لندن نے تہران کے ساتھ تعاون نہیں کیا ہے-

جانسن نے اگرچہ اس دورے میں ایٹمی سمجھوتے کی حمایت کی اور یہ کوشش کی کہ واشنگٹن کے تعلق سے آزاد و مستقل موقف اختیار کریں لیکن عملی طور پر ماضی کی تلافی کے لئے کوئی واضح مجوزہ پیکج پیش نہیں کیا۔ ایک ایسا پروگرام، جو ایٹمی معاہدے پر عملدرآمد کے سلسلے میں اب تک دیکھنے میں آیا ہے، اس کی تلافی کے لئے پیش نہیں کیا ہے۔ 

ابھی ایرانی تاجر اس بات سے ناراض ہیں کہ لندن نے عالمی کاروبار کو بڑھانے میں ان کی کوئی مدد نہیں کی ہے اور نہ ہی برطانوی بینکوں نے ایرانی تاجروں کے لئے اپنی آغوش پھیلائی ہے۔ ایٹمی معاہدے کی رو سے ایران کے خلاف پابندیاں عائد کرنے والے ممالک، خاص طور پر برطانیہ، کہ جس نے پابندیوں کے دور میں ایران پر دباؤ ڈالنے میں اہم رول ادا کیا ہے، اس بات کے پابند ہیں کہ ایٹمی معاہدے پردستخط کے بعد سے عالمی سطح پر ایران کے اقتصادی معاملات اور تجارتی مسائل کے لئے حالات فراہم کریں گے تاہم برطانیہ نے اس سلسلے میں کچھ نہیں کیا۔

بنابرایں برطانوی وزیر خارجہ جانسن گذشتہ روز تہران سے ایسی حالت میں رخصت ہوئے کہ اس دورے سے ان کو کوئی واضح نتیجہ حاصل نہیں ہوا ہے۔ اگرچہ برطانوی وزیر خارجہ کا  خود یہ دورہ تہران اپنی جگہ ، تہران کے مقتدر ہونے کی علامت ہے تاہم لندن مشترکہ معاہدوں کی وضاحت اور دو طرفہ معاہدوں پر دستخط کرکے اس دورے سے زیادہ فائدہ اٹھا سکتا تھا۔

ایسا خیال کیا جا رہا ہے کہ علاقے کے عرب ملکوں خاص طور پر ابوظہبی اور ریاض کے کشیدگی پھیلانے والے اقدامات کے دلدل میں لندن کے پھنس جانے اور تہران سے دوری اختیار کرنے کے لئے لندن پر واشنگٹن کا دباؤ اس بات باعث بنا ہے کہ بوریس جانسن کے اس دورے میں، تہران اور لندن کے تعلقات اپنی حدود سے آگے نہیں بڑھے اور صرف دونوں ملکوں کے درمیان بعض چھوٹے اختلاف انگیز مسائل تک محدود رہے۔  

ایٹمی سمجھوتے کے بعد بہت سے ملکوں نے کوشش کی ہے کہ ایران کی اقتصادی گنجائشوں سے استفادے کے لئے موقع سے فائدہ اٹھائیں لیکن وہ حکومتیں جو ایران کی دشمن ہیں یا ایران مخالف منصوبوں سے متاثر ہوکر تہران سے قریب نہیں ہوسکی ہیں، اس راہ میں پیچھے رہ گئی ہیں اور ان ہی ملکوں میں برطانیہ بھی ہے کہ جو ابھی تک، جیسا کہ چاہئے ایٹمی معاہدے سے فائدہ نہیں اٹھا سکا ہے اور ایٹمی معاہدے پر دقیق طرح سے عمل کرنے میں رکاوٹیں کھڑی کر رہا ہے۔

اسی طرح عراق میں داعش کے مکمل خاتمے کے بعد ایسے ممالک کم نہیں ہیں کہ جنہوں نے ایران کے، علاقے کا ایک طاقتور ملک ہونے کا اعتراف کیا ہے اور کوشش کی ہے کہ علاقے میں امن و استحکام کی بحالی کے لئے اس طاقت سے فائدہ اٹھائیں لیکن اس کے باوجود لندن ابھی تک اس میدان میں آگے نہیں بڑھا ہے۔ اس طرح سے ایسا خیال کیا جا رہا ہے کہ ایران کے تعلق سے برطانیہ کی غلطیوں کے ازالے کے لئے، وزیر خارجہ کے دورے سے زیادہ، ایک نظریاتی اصلاح کی ضرورت ہے۔ ایسی اصلاح جو ہمیشہ کے لئے لندن کو صیہونی لابی اور وائٹ ہاؤس کی وابستگی سے نجات دے سکے۔        

ٹیگس