بیت المقدس کے بارے میں عرب لیگ کا ہنگامی اجلاس
عرب لیگ کے وزرائے خارجہ نے سنیچر کو قاہرہ میں ایک ہنگامی اجلاس میں بیت المقدس کے سلسلے میں امریکی صدر ٹرمپ کے فیصلے کی مذمت کی -
یہ ایسی حالت میں ہے کہ اگر عرب لیگ کے اس اجلاس کا تین زایوں یعنی اجلاس کے باہر کے سیاسی رویے ، اجلاس کے انعقاد کی سطح اور منظرعام پر آنے والے ذیلی موضوعات کا جائزہ لیا جائے تو واضح ہوجاتا ہے کہ اجلاس میں صرف زبانی موقف اختیار کیا گیا جن پرعمل درآمد کی کوئی ضمانت نہیں ہے-
یہاں تک کہا جا سکتا ہے کہ صیہونی حکومت کے دارالحکومت کے عنوان سے مقبوضہ بیت المقدس کو تسلیم کئے جانے کے لئے ٹرمپ کے حالیہ فیصلے اور فلسطین کے بارے میں عرب لیگ کے اجلاس کے شرکاء کے موقف تک میں اتحاد و یکجہتی دیکھنے میں نہیں آئی جبکہ بعض عرب ممالک نے ٹرمپ کے فیصلے کی مذمت میں مضبوط موقف اختیار کیا بطور مثال تیونس نے امریکی سفیر کو وزارت خارجہ میں طلب کیا اور تیونس کی پارلیمنٹ نے اس اقدام کی مذمت میں اجلاس بھی تشکیل دیا یا مصر کی الازہر یونیورسٹی نے ٹرمپ کے اقدام کی مذمت کی اور اس ملک کے قبطی عیسائیوں نے رواں مہینے کے آخر میں امریکہ کے نائب صدر مائک پینس سے اپنی ملاقات منسوخ کردی اور خلیج فارس کے بعض عرب ممالک حتی مصر جیسے اہم ملک سے ناخوشگوار خبریں مل رہی ہیں- جبکہ قاہرہ میں عرب لیگ کے وزرائے خارجہ کے ہنگامی اجلاس اور اس میں ٹرمپ کے فیصلے کی مذمت کے باوجود بحرین کا ایک سرکاری وفد اتوار کو اسرائیل کے دورے پر پہنچا - درایں اثنا مختلف نیوز ایجنسیوں نے اعلان کیا ہے کہ سعودی عرب ، متحدہ عرب امارات اور اردن کے حکام نے اطلاع کے باوجود بیت المقدس کے بارے میں ٹرمپ کے فیصلے کی مخالفت تک نہیں کی- اس بنا پر تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ ان ملکوں کی موجودہ مخالفت صرف ایک سیاسی اعلامیہ ہے جس کا عمل سے کوئی تعلق نہیں ہے- دوسرا موقف کہ جس سے ثابت ہوتا ہے کہ عرب لیگ کی جانب سے ٹرمپ کے فیصلے کی مذمت اور موقف پر عمل درآمد کی کوئی ضمانت نہیں ہے یا اس پر عمل درآمد کی ضمانت نہایت کمزور اور محدود ہے ، یہ ہے کہ باوجود اس کے کہ اسرائیل کا دارالحکومت تل ابیب سے بیت المقدس منتقل کرنے کے بارے میں ٹرمپ کا فیصلہ بالفور اعلامیے کی مانند ہی اہمیت رکھتا ہے تاہم عرب لیگ کے رکن ممالک نے سربراہی سطح پر نہیں بلکہ وزرائے خارجہ کی سطح کے اجلاس منعقد کئے کہ جو اس ادارے کا اعلی سطحی اجلاس نہیں ہے- اسی اجلاس میں سعودی عرب کے وزیرخارجہ عادل الجبیر کی اجلاس کو اہمیت نہ دیتے ہوئے موبائل میں مصروف تصاویر شائع ہونے سے پتہ چلتا ہے کہ عرب لیگ کے بعض ممالک کا موقف، بیان سے زیادہ کچھ نہیں ہے- دوسرا نکتہ یہ ہے کہ عرب لیگ کے اختتامی اجلاس میں صرف بیت المقدس کے بارے میں ٹرمپ کے فیصلے کی مذمت کی گئی اور اسرائیل کے ساتھ ہونے والی حالیہ جھڑپوں میں فلسطین کی زبانی حمایت تک نہیں کی گئی جبکہ اسماعیل ہنیہ نے اسے تیسری تحریک انتفاضہ کا آغاز قرار دیا ہے-
اس کے باوجود اہم نکتہ یہ ہے کہ عرب لیگ کے وزرائے خارجہ کے ہنگامی اجلاس کے انعقاد سے ثابت ہوتا ہے کہ عرب حکومتیں اور حکام، مسلمانوں خاص طور سے عرب مسلمانوں کے لئے بیت المقدس کی اہمیت سے آگاہ ہیں - اس بنا پر ایسے عالم میں جب مختلف عرب ممالک کے عوام، ٹرمپ کے فیصلے کے خلاف سڑکوں پرنکل آئے ہیں، عرب حکام اس موضوع سے لاتعلق نہیں رہ سکتے-