Dec ۱۲, ۲۰۱۷ ۱۷:۱۸ Asia/Tehran
  • اسلامی تعاون تنظیم کے سربراہوں کا ہنگامی اجلاس

اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر ڈاکٹرحسن روحانی کل بدھ کے روز ترکی میں اسلامی کانفرنس تنظیم کے سربراہوں کے ہنگامی اجلاس میں شرکت کریں گے۔

اس اجلاس کی اہمیت اس لحاظ سے زیادہ ہے کہ قدس کوصیہونی حکومت کا دارالحکومت تسلیم کرنے اور امریکی سفارتخانے کو تل ابیب سے قدس منتقل کرنے کے ٹرمپ کے حالیہ فیصلے کے خلاف ، اسلامی ملکوں کا یہ پہلا اجتماعی ردعمل ہوگا۔

گذشتہ چند دنوں کے دوران مسلمانوں نے دنیا کے بہت سے ملکوں میں وسیع پیمانے پر مظاہرہ کرکے ٹرمپ کے اس فیصلے کے خلاف اپنے غم و غصے کا اظہار کیا ہے۔ اس کے علاوہ امریکہ کی بہت سی اتحادی حکومتوں نے چاہے وہ علاقے کی ہوں یا یورپ کی ، انہوں نے بھی وائٹ ہاؤس کے اس فیصلے کی مخالفت کی ہے-

اس کے باوجود ایسے تجزیہ نگار بھی کم نہیں ہیں کہ جن کا خیال ہے کہ بیت المقدس کے سلسلے میں امریکہ کے اس جسورانہ اقدام اور مشرق وسطی امن مذاکرات کے تمام نتائج کو نظر انداز کرنے کے باوجود، علاقے کے بعض ممالک صیہونی حکومت کا ساتھ دے رہے ہیں۔

صیہونی حکومت کا ساتھ دینے کی ایک علامت، بحرین کے ایک وفد کا حالیہ دورہ مقبوضہ فلسطین ہے۔ ایک ایسا دورہ جس سے واضح ہوجاتا ہے کہ آل خلیفہ حکومت کس طرح سے تحریک انتفاضہ کے پشت میں خنجر بھونک رہی ہے۔ 

علاقے کی کچھ اور بھی حکومتیں ہیں جو غاصب صیہونی حکومت کے ساتھ اپنے تعلقات کو پنہاں نہیں رکھ سکی ہیں ان میں سے ایک سعودی عرب ہے۔ دونوں فریق کے اعلی حکام کے متعدد سفروں سے اس امر کی نشاندہی ہوتی ہے کہ مسلمانوں کے مقدس شہر میں اپنا سفارتخانہ منتقل کرنے کا امریکی اقدام ، علاقے کی بعض جارح حکومتوں کو ہری جھنڈی دکھانے کے مترادف ہے۔

اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر ڈاکٹر حسن روحانی نے ترکی روانہ ہونے سے قبل ، گذشتہ روز ایران کی پارلمینٹ مجلس شورائے اسلامی میں صراحتا سعودی عرب سے مطالبہ کیا کہ وہ صیہونی حکومت کے ساتھ اپنے روابط منقطع کرلے۔ یہی وہ موقف ہے کہ جس کی تکرار اسلامی کانفرنس تنظیم میں ممکن ہے عالم اسلام کے بعض حکمرانوں کو خواب غفلت سے بیدار کردے۔

علاقے کی وہ حکومتیں کہ جو قدس کی آزادی کی امنگوں سے خیانت کرکے اور اسرائیل کے ساتھ رابطہ برقرار کرکے یہ چاہتی ہیں کہ اپنی غیر قانونی حکومتوں کو دوام بخشیں، ان کو چاہئے کہ ان حکومتوں سے عبرت لیں کہ جنہوں نے امریکہ اور اسرائیل کی حمایت سے دل وابستہ کر رکھا تھا۔

چنانچہ مصر کے سابق معزول صدر حسنی مبارک یا ایران کے آخری پہلوی بادشاہ محمد رضا، عالم اسلام کی حکومتوں کے ایسے سربراہ رہے ہیں کہ جو فلسطین کی آزادی سے خیانت کرنے کے باوجود اپنی حکومتوں کو محفوظ نہیں رکھ سکے اور مزاحمتی تحریکوں کے مقابلے میں ان کے پیر اکھڑ گئے۔  

اس لئے ایسا خیال کیا جا رہا ہےکہ امریکی سفارتخانے کی بیت المقدس منتقلی کے پیش نظر، مسجد الاقصی کو نابود کرنے کی امریکی و اسرائیلی سازش مکمل طور پر نمایاں ہوگئی ہے اور وہ حکومتیں جو چاہتی ہیں کہ اس طرح کی حکومتوں کے ساتھ تعاون کریں ان کو اپنے ملک کے عوام کے انقلابی اقدامات کا منتظر رہنا چاہئے۔

آل خلیفہ اور آل سعود جیسی حکومتیں کہ جو تل ابیب کے ساتھ گہرے تعلقات قائم کرنے کے درپے ہیں ان کو ایک نہ ایک دن غیرت مند عربوں کے غیض وغضب کا نشانہ بننا پڑے گا- یہ حکومتیں اپنے عوام پر دباؤ ڈال رہی ہیں اور معلوم نہیں کہ ان جارح اور خیانتکار عناصر کا انجام کیا ہوگا۔

بدھ کے روز ترکی میں ہونے والی اسلامی تعاون تنظیم کی سربراہی کانفرنس ایک موقع ہے تاکہ تمام اسلامی حکومتیں کم از کم بظاہر ہی سہی، بیت المقدس کے مسئلے میں متحدہ موقف اختیار کریں اور یہ ثابت کردیں کہ وہ امریکہ اور صیہونی حکومت کے مفادات سے زیادہ،  مسئلہ فلسطین کے بارے میں تشویش رکھتی ہیں۔ 

اگر سعودی حکومت یمن پر بمباری کے بجائے،  صیہونی حکومت کے خلاف تمام اسلامی ملکوں کا ساتھ دے تو خود کو اپنے ہی بنائے ہوئے دلدل سے نجات دلا سکتی ہے۔               

ٹیگس