عالم اسلام سے آل سعود کو الگ تھلگ کرنے کا اسرائیلی جال
صیہونی اخبار ہاآرٹص نے اعلان کیا ہے کہ صیہونی حکومت کے وزیر انٹلی جنس "یسرائیل کاٹز" Yisrael Katz نے سعودی ولیعہد محمد بن سلمان کو تل ابیب کے دورے کی دعوت دی ہے۔
اسرائیل کے وزیر انٹیلی جینس یسرائیل کاٹز نے سعودی انٹرنیٹ اخبار ایلاف کو انٹرویو دیتے ہوئے محمد بن سلمان کو اسرائیل کے دورے کی باضابطہ دعوت دی ہے۔ صیہونی حکومت کے وزیر انٹیلی جنس نے تجویز پیش کی ہے کہ سعودی عرب کو فلسطینی اتھارٹی اور اسرائیل کے درمیان مذاکرات کی حمایت میں کھلا کردار ادا کرنا چاہیے۔
سعودی عرب اور صیہونی حکومت کے درمیان خاص طور پر گذشتہ ایک سال کے دوران تعلقات کو معمول پر لانے کے عمل میں تیزی آئی ہے۔ ترقی پذیر ملکوں کی خارجہ پالیسی کے تعلق سے فیصلے سازی کے بارے میں بیشتر افراد کا یہ خیال ہے کہ ان ملکوں میں اسرائیلی افکار ونظریات کی پیروی کرنے والے افراد موجود ہیں۔
مشرق وسطی کے امور میں ماہر بھجت کورانی کا خیال ہے کہ ترقی پذیر ملکوں کی خارجہ پالیسی کے تعلق سے فیصلہ سازی میں پہلا مسئلہ ان ملکوں کے رہنماؤں کی نفسیات منجملہ ان کے افکار و نظریات پر غور کرنا ہے۔
ریاض اور تل ابیب کے درمیان تعلقات کی بحال کے عمل میں تیزی آنے کی ایک اہم ترین وجہ بھی سعودی، اسرائیلی اور امریکی حکام کے ذاتی نظریات میں یکسانیت ہے۔ محمد بن سلمان ، بنیامین نتنیاہو اور ڈونلڈ ٹرمپ کا یہ مثلث، خارجہ پالیسی کو اپنےذاتی افکار و نظریات کی بنیاد پر آگے بڑھا رہا ہے اور اس سلسلے میں ٹرمپ کے داماد جرڈ کوشنر کے، سعودی ولیعہد بن سلمان اور صیہونی وزیر اعظم نتن یاہو سے تعلقات کی جانب اشارہ کیا جاسکتا ہے۔
اسرائیل سعودی عرب کے ساتھ تعلقات بحال کرنے کے ذریعے اہم اہداف کے حصول کے درپے ہے ۔ اسرائیل نے سعودی عرب کو، تعلقات کی بحالی کے لئے اپنا اہم ترین ہدف قرار دیا ہے اور درحقیقت اس کوشش میں ہے کہ سعودی عرب کو اسلامی ملکوں سے الگ تھلگ کردے۔ صیہونی حکومت کو بخوبی علم ہے کہ سعودی عرب کو عالم اسلام میں مذہبی لحاظ سے ایک خاص مقام و منزلت حاصل ہے اور دوسری جانب سعودی عرب کی موجودہ حکومت بھی علاقائی پالیسیوں میں ممتاز مقام حاصل کرنے میں کوشاں ہے۔
درحقیقت صیہونی حکومت نے ریاض کے موجودہ حکمرانوں کی سیاسی صلاحیتوں کو بھانپ لیا ہے اور ترکی کے شہر استنبول میں مقبوضہ بیت المقدس کے بارے میں منعقدہ اسلامی تعاون تنظیم کے ہنگامی اجلاس میں سعودی بادشاہ، ولیعہد یا وزیر خارجہ کی عدم شرکت سے یہ بات مکمل طور پر واضح ہوجاتی ہے کہ سعودی عرب ، اب مکمل طور پر صیہونی حکومت کے جال میں پھنس چکا ہے۔