حماس کے یوم تاسیس کی سالگرہ کے موقع پر، تحریک انتفاضہ جاری رکھنے پر تاکید
ہزاروں فلسطینیوں نے غزہ کے الکتیبہ اسکوائر پر منعقدہ تقریب میں شرکت کر کے حماس کے قیام کی تیسویں سالگرہ کا جشن منایا۔ اور مزاحمت ہمارا انتخاب اور وحدت ہمارا راستہ ہے، کے نعرے لگائے-
اس موقع پر حماس کے سربراہ اسماعیل ہینہ نے اپنی تنظیم کے تیسویں یوم تاسیس کی شاندار تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ حماس، سرزمین فلسطین میں استقامت اور مزاحمت کے فطری تسلسل کا نام ہے۔ القدس کے خلاف امریکی صدر کے حالیہ فیصلے کے بعد فلسطین اور بیت المقدس کا معاملہ ایک بار پھر عالم اسلام کے مرکزی اور بنیادی مسئلے میں تبدیل ہو گیا ہے اور نئی تحریک انتفاضہ کے شعلے بھڑک اٹھے ہیں۔ حماس کے سربراہ اسماعیل ہنیہ نے اپنے خطاب میں یہ بات زور دے کر کہی کہ امریکہ کو بیت المقدس کے بارے میں اپنے فیصلے سے پسپائی پر مجبور کرنے کے لیے علاقائی اور عالمی سطح پر پوری توانائیوں سے کام لینے کی ضرورت ہے۔
انہوں نے بڑے واضح الفاظ میں کہا کہ جب اسرائیل نام کے کسی ملک کا وجود ہی نہیں ہے تو کسی شہر کو اس کا دارالحکومت کیسے قرار دیا جائے۔ اسماعیل ہنیہ نے ایک بار پھر اپنی تنظیم کے اس دیرینہ موقف کا اعادہ کیا کہ تحریک حماس، اسرائیل کو کبھی تسلیم نہیں کرے گی۔ حماس کے سربراہ نے کہا کہ ان کی تنظیم امریکی صیہونی سازش کے مقابلے کی غرض سے خطے میں ایک مضبوط اور طاقتور اتحاد کے قیام کی کوشش کر رہی ہے۔ انہوں نے عربوں اور مسلم اقوام سے اپیل کی کہ وہ فلسطین اور بیت المقدس کی خاطر اپنے تمام اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر آپس میں متحد ہو جائیں۔ اسماعیل ہنیہ کا کہنا تھا کہ حماس اندرون ملک قومی آشتی کی خواہاں ہے، ہم چاہتے ہیں کہ ٹرمپ کے قدس مخالف فیصلے کے خلاف ٹھوس اور مشترکہ موقف اپنانے کے لیے قومی آشتی کو فی الفور یقینی بنایا جائے۔
انہوں نے ٹرمپ کے فیصلے کے خلاف احتجاج اور تحریک انتفاضہ کا سلسلہ جاری رکھے جانے کی ضرورت پر بھی زور دیا۔ انہوں نے اپیل کی کہ ہر جمعے کو دنیا کے مختلف ملکوں کے دارالحکومتوں میں ٹرمپ کے قدس مخالف فیصلے کے خلاف مظاہرے کیے جائیں اور امریکہ کی جانب سے فیصلہ واپس لیے جانے تک مظاہروں اور احتجاج کا سلسلہ جاری رکھا جائے۔
اس موقع پر فلسطین کی تحریک جہاد اسلامی کے سینئر رکن خالد البطش نے بھی کہا کہ تحریک حماس کے تیسویں یوم تاسیس کے جشن میں وسیع پیمانے پرفلسطینیوں کی شرکت ایک طرح سے مزاحمت، جہاد اور اصولوں کی پاسداری کے حق میں ریفرنڈم اور ووٹ دینا ہے- خالد البطش نے کہا کہ اتنے عظیم پیمانے پر فلسطینیوں کا اجتماع امریکی صدر کی جانب سے بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت اعلان کرنے کے خلاف ٹھوس جواب ہے-
فلسطینیوں کی تحریک انتفاضہ میں تیزی آنے اور فلسطین کے مسئلے کے عالمی ہونے کے سبب، مقبوضہ فلسطین میں صیہونی حکومت کو اپنے اہداف کی تکمیل اور اپنی پوزیشن مستحکم بنانے میں منھ کی کھانی پڑی ہے۔ فلسطین کو آزاد کرانے اور ملت فلسطین کے پامال شدہ حقوق کی بازیابی کے لئے مزاحمت ہی بہترین آپشن ہے۔ تحریک انتفاضہ نے صیہونی حکومت کے ساتھ مقابلے کی نئی زمین ہموار کی ہے - فلسطینی عوام نے گذشتہ برسوں کے دوران صیہونی حکومت کو جس طرح سے فوجی اور سیاسی میدانوں میں متعدد شکستوں سے دوچار کیا ہے اس وقت بھی ان کے سامنے اپنے اہداف اور امنگوں کو حاصل کرنے کا واحد راستہ، صیہونی حکومت کے مقابلے میں مزاحمت و استقامت ہی ہے اور تحریک حماس کے حکام اس مسئلے پر تاکید کرتے ہوئے فلسطین کی آزادی تک انتفاضہ جاری رکھنے کے خواہاں ہیں-
فلسطین کی سرزمین اور خاص طور پر قدس میں امریکہ اور صیہونی حکومت کے توسط سے اپنے مذموم عزائم اور اہداف کو آگے بڑھانے میں ان حکومتوں کی گستاخی، اورفلسطینی عوام کے لئے مشرق وسطی میں سازباز کے عمل کے منفی نتائج سامنے آنے کے بعد ، فلسطینی عوام اور گروہوں کی جانب سے مزاحمت کو جاری رکھنے اور اسے ماضی سے زیادہ ارتقاء دینے کی اسٹریٹیجی کا صحیح ہونا، مزید واضح اور آشکارہ ہوگیا ہے-