Dec ۱۶, ۲۰۱۷ ۱۶:۰۶ Asia/Tehran
  • ایران کے خلاف امریکہ کی نئی تشہیراتی اسٹریٹیجی کی چار وجوہات

اقوام متحدہ میں امریکی نمائندہ نکی ہیلی نے، جن کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ انھیں وزیر خارجہ ریکس ٹیلرسن کی جگہ وزیرخارجہ بنایا جاسکتا ہے، ایک پریس کانفرنس میں کہ جو ایک غیرروایتی ماحول میں میزائل کے ایک ٹکڑے کے سامنے منعقد ہوئی، تہران پر سلامتی کونسل کی پابندیوں کی خلاف ورزی کرنے کا الزام لگایا ہے۔

سلامتی کونسل کی قراردادوں کی خلاف ورزی سے ان کی مراد ایک، انصاراللہ یمن کے لئے ہتھیار بھیجنا اور دوسرے ایٹمی وار ہیڈز لے جانے کی صلاحیت رکھنے والے بیلسٹک میزائل بنانے پر پابندی ہے۔

اس بیان پر ردعمل ظاہرکرتے ہوئے ایران کے وزیرخارجہ محمد جواد ظریف نے گذشتہ رات اپنے ایک ٹوئیٹ میں کہا کہ امریکی حکومت ، ایران کے خلاف سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے بے بنیاد الزامات کو دہرا رہی ہے۔ ریاض اور ابوظہبی دو ایسے دارالحکومت ہیں جنھوں نے نیکی ہیلی کے ایرانو فوبیا پر مبنی بیانات کے بعد اس کا خیرمقدم کیا اور خود کو ایران کی دفاعی صلاحیتوں کی بھینٹ چڑھنے والا ظاہر کرنے کی کوشش کی- لیکن ٹرمپ حکومت کے ایران مخالف نئے اقدامات شروع ہونے کی مختلف وجوہات ہوسکتی ہیں- پہلی وجہ مغربی ایشیاء میں واشنگٹن کا نتہا ہوجانا ہے یہاں تک کہ کسی بھی حکومت نے اسرائیلی سفارتخانہ بیت المقدس منتقل کئے جانے کی حمایت نہیں کی جس سے امریکی حکام میں سخت مایوسی پیدا ہوئی ہے اور انھوں نے اپنے حالیہ سیاسی ڈرامے کے ذریعے اس سفارتی ناکامی کی تلافی اور اپنے علاقائی اتحادیوں کا دل خوش کرنے کی کوشش کی ہے-

دوسری وجہ یہ ہے کہ ڈونالڈ ٹرمپ کی حکومت مشترکہ جامع ایکشن پلان کی گیند گانگریس کے پالے میں ڈالنے کی اسٹریٹیجی میں بھی ناکام ہوگئی اور اب ان کی حکومت کے پاس ایٹمی سمجھوتے سے ممکنہ طور پر باہر نکلنے کے لئے کافی وجوہات ہونا چاہئے۔ فطری امر ہے کہ ایٹمی سمجھوتے کی شقوں میں اضافہ کرنے اوراس میں ایران کی میزائلی سرگرمیوں کو شامل کرنے کی وائٹ ہاؤس کی کوششوں کے پیش نظر، واشنگٹن چاہتاہے کہ  ایرانوفوبیا کی سرگرمیاں بڑھا کر ایٹمی سمجھوتے سے باہر نکلنے کی راہ ہموار کرے اور اپنے اس اقدام کے لئے کہ جو تمام بین الاقوامی اصولوں کے خلاف ہے، بظاہرکوئی قانونی جواز پیدا کرے- 

دوسری جانب امریکہ، کہ جس پر سعودی عرب کی جنگ پسند حکومت کی حمایت کرنے اور اپنے ہتھیار ایک ایسی حکومت کو دینے کا الزام ہے کہ جو بچوں کی قاتل ہے، موجودہ حقائق سے فرار کرنے کے لئے الٹی گنگا بہانے کی پالیسی اپنا‏ئے ہوئے ہے اور چاہتا ہے کہ جنگ یمن میں سعودی عرب کو ہتھیار دینے والے حتی داعش کی اسلحہ جاتی حمایت کرنے والے کے طور پر پہچانے جانے کے بجائے قاضی اور پولیس مین بن کر اپنے اوپر عائد الزامات ، ایران کے سر منڈھ دے-

اسی طرح ایسے حالات میں جب ڈونالڈ ٹرمپ، جنسی تشدد اور انتخابی دھاندلی کے اسکینڈل میں اپنے ملک کے اندر بھی مخالفین کے دباؤ کا سامنا کررہے ہیں اور ان کی پالیسیاں اس بات کا باعث بنی ہیں کہ ریپبلکن ، کانگریس کی ایک نشست سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں، واشنگٹن کوشش کررہا ہے کہ ایران کے میزائلی پروگرام کو بڑھا چڑھا کر پیش کرکے اپنے اوپر عائد الزام سے پیچھا چھڑا لے اور امریکی رائے عامہ کی توجہ ملک کے داخلی مسائل کی جانب سے موڑ دے -

ان سب کے باوجود نکی ہیلی کے تشہیراتی ڈرامے پر عالمی ردعمل نے ثابت کردیا کہ اقوام متحدہ ، مغربی حکومتیں اور ایران مخالف دوعلاقائی حکومتوں کو چھوڑ کر کوئی بھ حکومت ایران کے خلاف امریکہ کا ساتھ دینے کے لئے تیار نہیں ہوئی اور سی این این اور نیویارک ٹائمز جیسے امریکی ذرائع ابلاغ بھی وائٹ ہاؤس سے پوچھ بیٹھے کہ وہ کس ثبوت و دلیل سے ایران پر سلامتی کونسل کی قراردادوں کی خلاف ورزی کا الزام لگا رہا ہے؟

ڈونالڈ ٹرمپ کو، جنھوں نے وعدہ کیا تھا کہ وہ سابقہ امریکی حکومتوں کے برخلاف اپنی توجہ ملک سے باہر نہیں بلکہ ملک کے اندر مبذول رکھیں گے، اس حقیقت کو ماننا پڑے گا کہ ایرانوفوبیا کا کچے دھاگے جیسا سیناریو اب دہرائے جانے کے قابل نہیں ہے اور انھیں بالکل اکیلے اپنی پالیسیوں پرعمل کرنا پڑے گا- 

ٹیگس