فرانس، امریکہ کا ساتھ دینے سے اجتناب کرے: ایران
ایسے میں جبکہ امریکی حکومت ایٹمی معاہدے کی خلاف ورزی کے سبب اکیلی پڑ گئی ہے اور حتی کہ اس ملک کی کانگریس نے بھی ایٹمی معاہدے کی خلاف ورزی میں اپنے انتہا پسند صدر کا ساتھ نہیں دیا ہے تو اب پیرس خود کو بدعہدی کے دشوار امتحان میں گرفتار کر رہا ہے۔
فرانس کے وزیر خارجہ نے اپنے دورہ واشنگٹن میں یہ کوشش کی ہے کہ ایٹمی سمجھوتے کے بارے میں وائٹ ہاؤس کے ساتھ مذاکرات کریں۔ جبکہ یہ بات واضح ہے کہ فرانسیسی اور امریکی حکام کے مذاکرات کا موضوع، ایٹمی مسئلہ نہیں بلکہ بیلسٹیک میزائلوں کی توسیع کے پروگرام ہے۔ فرانسیسی حکام کے متضاد مواقف اب تک اس بات کا باعث بنے ہیں کہ ایٹمی سمجھوتے کے سلسلے میں یورپ کا موقف مبھم ہی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ ایٹمی مسئلے میں لندن نے اگر لچکدار موقف اپنایا ہے تو جرمنی ایٹمی معاہدے کی حمایت کر رہا ہے اور فرانس واشنگٹن کا ساتھ دے رہا ہے۔ یہ ایسی حالت میں ہے کہ یورپی یونین کا موقف دوہرے معیار پر مبنی ہے اور یورپی یونین ایٹمی سمجھوتے کی حمایت کے ساتھ ہی میزائل کے مسئلے میں، علاقے کے امریکی اتحادیوں کے ساتھ اور ان کی ہمنوا ہے-
فرانس نے ایران کے دفاعی پروگرام کے خلاف جو موقف اپنا رکھا ہے اس کے علاوہ اس نے اپنے ملک میں دہشت گرد گروہ منافقین کو بھی ایران مخالف موقف میں شدت لانے کی کھلی چھوٹ دے رکھی ہے اور اس گروہ نے پیرس میں گذشتہ دنوں کے دوران اب تک دو اجلاس منعقد کئے ہیں۔ پیرس میں ایک دہشت گرد گروہ کو آزادی کے ساتھ ایران مخالف اقدامات کی اجازت دیئے جانے سے اس خوف میں مزید شدت پیدا ہوگئی ہے کہ کہیں یہ گروہ علاقائی مسائل پر اثرانداز نہ ہوجائے۔ تہران نے اب تک بارہا یورپی ملکوں سے اپیل کی ہے کہ وہ اپنا موقف واشنگٹن کے غیر سفارتی موقف سے الگ کرلیں۔ رہبر انقلاب اسلامی آیۃ اللہ العظمی خامنہ ای نے حال ہی میں اپنےبیانات میں فرمایا ہے کہ ایران کے خلاف الزام تراشی میں یورپی یونین کا امریکہ کی ہاں میں ہاں ملانا ناقابل قبول امر ہے۔
اس کے باوجود گذشتہ ہفتوں کے دوران اور خاص طورپر داعش کی شکست کے مسئلے میں مغرب کے بند گلی میں پہنچ جانے کے بعد ایک بار پھر ایران کے خلاف مغربی ممالک متحد ہوگئے ہیں اور بات یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ امریکی وزیر دفاع نے کہا ہے کہ وہ ایران کے خلاف سفارتی محاذ تشکیل دینے کے درپے ہیں۔ شاید سفارتی محاذ سے میٹیس کی مراد ، اثرو رسوخ کو روکنے کی اسٹریٹیجی کو دہرانا ہے کہ جسے اس سے قبل امریکہ اور یورپ سرد جنگ کے دوران انجام دے چکے ہیں-
بہرحال جو بھی ہو، یورپی ملکوں کو یہ جان لینا چاہئے کہ اگر انہوں نے ایٹمی معاہدے کی خلاف ورزی میں امریکہ کا ساتھ دیا تو اس کے برے نتائج میں بھی انہیں امریکیوں کا شریک ہونا پڑے گا- ایسے میں جبکہ فرانس کی بہت سی کمپنیاں، خواہ وہ گاڑی بنانے والی کمپنیاں ہوں یا تیل کی کمپنیاں ہوں، ایران کے ساتھ سودمند معاہدے کر رہی ہیں تو اس ملک کی حکومت سیاسی لحاظ سے ٹرمپ کے ساتھ ایٹمی سمجھوتے کی خلاف ورزی میں اس کا ساتھ دے رہی ہے۔ ظاہر سی بات ہے کہ اس طرح ان کی یہ ہمراہی زیادہ دیر تک دوام نہیں لاسکے گی اور اگر فرانس، خواہ ایٹمی معاہدے کے بارے میں ہو یا میزائل کے مسئلے میں یا وہ دہشت گردوں کے آزادانہ طور پر اقدامات انجام دینے کے تعلق سے ہو، اپنا متضاد رویہ جاری رکھے گا تو اسے اس کے نتائج بھی بھگتنے پڑیں گے۔
تہران بلا شبہ یورپی ملکوں کے ساتھ زیادہ سے زیادہ تعاون کا خیرمقدم کرتا ہے ساتھ ہی ان ملکوں کو بھی اس بات کا خیال رکھنا چاہئے کہ کہیں ڈونلڈ ٹرمپ اور امریکہ کے دیگر انتہا پسند حکام ان تعلقات کو نقصان نہ پہنچا دیں۔