استقامتی سفارتکاری کی نبض ایران میں دھڑکتی ہے
اسلامی ممالک، بیت المقدس کو امریکہ و اسرائیل کی نئی عیاریوں سے بچانے کے لئے اپنا صلاح و مشورہ جاری رکھے ہوئے ہیں اور اس سلسلے میں تہران، اسلامی استقامت کے اصلی محور کی حیثیت سے آج اسلامی ممالک کی بین الپارلیمانی کمیٹی کے ہنگامی اجلاس کا میزبان ہے۔
اس سے قبل اسلامی ممالک کی جانب سے اسلامی تعاون تنظیم کے تناظر میں امریکی سفارتخانہ تل ابیب سے بیت المقدس منتقل کئے جانے کے بارے میں استنبول اجلاس میں اپنے موقف کے اعلان کے بعد بھی اسلامی ممالک کی بین الپارلیمانی یونین کے اجلاس کا انعقاد اس بات پر تاکید ہے کہ فلسطین عالم اسلام کا سب سے بڑا مسئلہ ہے-
اسلامی پارلیمان کہ جو علاقے کے بہت سے ممالک میں مسلم امۃ کے عام مطالبات کی علامت ہے، مسلم حکومتوں سے زیادہ بہتر طریقے سے سفارت کاری کے ذریعے قوموں کے مطالبات منتقل کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے-
اس وقت بہت سی حکومتیں سیاسی تحفظات اور تکلفات کا شکار ہیں اور واشنگٹن اور غاصب صیہونی حکومت کے خلاف مضبوط موقف اختیار کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں- اس کے باوجود اسلامی پارلیمان اس طرح کے تحفظات سے دور رہتے ہوئے فلسطین کی آزادی کی اہمیت پر تاکید کرسکتی ہیں-
ایک رجعت پسند عرب حکومت کہ جس کے سلسلے میں ایسا نظرآتا ہے کہ اس نے امریکی سفارتخانے کی منتقلی کے مسئلے میں اصلی کردار ادا کیا ہے ، سعودی عرب ہے- ایک ایسی حکومت کے جس کے وزیرخارجہ عادل الجبیر نے سرکاری طور پر اعلان کیا ہے کہ وہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پرلانے کا ارادہ رکھتے ہیں اور وہ ایران کے خلاف پروپیگنڈہ مہم شروع کر کے مسئلہ فلسطین اور امریکی سفارتخانہ بیت المقدس منتقل کرنے کے موضوع کو اہمیت نہ دینے کی کوشش کررہے ہیں- ترکی نے اسلامی تعاون تنظیم کے تناظر میں او آئی سی کا سربراہی اجلاس طلب کیا تھا اور آج تہران ، اسلامی پارلیمان کا اجلاس کررہا ہے تاہم ریاض نے اب تک امریکی سفارت خانے کی بیت المقدس منتقلی کی مذمت میں کوئی کردار ادا نہیں کیا ہے اور ایسا نظر آتا ہے کہ وہ عملی طور پر واشنگٹن اور صیہونی حکومت کے سامنے آنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا-
توقع ہے کہ آج تہران میں منعقدہ اسلامی ممالک کے بین الپارلیمانی اجلاس میں بیت المقدس کی آزادی کے سلسلے میں بعض عرب حکومتوں کی خیانتوں کی مذمت کی جائے گی اور اسلام کے مقدس مقامات کو مٹانے کی سازش میں صیہونیوں کے ساتھیوں کو بے نقاب کیا جائے گا-
واشنگٹن جو اس وقت پوری دنیا میں اپنے خلاف مظاہروں اور جلسہ و جلوس ہوتے ہوئے دیکھ رہا ہے، ایران کے خلاف مضحکہ خیز پروپیگنڈہ مہم شروع کرکے رائے عامہ کی توجہ مسئلہ فلسطین سے زیادہ ایران کی دفاعی طاقت کی جانب موڑنا چاہتا ہے- اس کے باوجود علاقے کی رائے عامہ کہ جو اس سے پہلے بخوبی دیکھ چکی ہے کہ امریکہ کس طرح انحرافی سیناریو کے ذریعے علاقے میں آشوب بپا کرچکا ہے اب واشنگٹن کی سازشوں کا شکار نہیں ہوگی اوروائٹ ہاؤس کے موقف کو نظرانداز کرتے ہوئے فلسطینی عوام کی حمایت جاری رکھنے کی کوشش کررہی ہے-
ساز باز کی غرض سے انجام دیے جانے والے ہر طرح کے مذاکرات کی ناکامی، ان مذاکرات میں ایک خائن ثالث کی حیثیت سے امریکہ کی ذلت اور اہل سنت کی حمایت کا دعوی کرنے والے ممالک کہ جنھوں نے فلسطینی معاشرے کو یکہ و تنہا چھوڑ دیا ہے کی رسوائی ، ڈونالڈ ٹرمپ کی امریکی سفارت خانہ بیت المقدس منتقل کئے جانے کی حماقت کے تین نتائج ہیں -
اسلامی ممالک کی بین الپارلیمانی یونین ان ذلت آمیز نتائج کو برملا کر کے اور فلسطینی عوام کی تحریک انتفاضہ کی ہمہ گیر حمایت کرکے، عرب حکومتوں کی خیانتوں کے نتیجے میں مسئلہ فلسطین حاشیے پر جانے اور صیہونیوں اور ان کے حامیوں کو مسلمانوں کے مقدس مقامات کی توہین و جارحیت جاری رکھنے سے روک سکتی ہے-