Dec ۲۲, ۲۰۱۷ ۲۰:۲۲ Asia/Tehran
  • 2017 کا سال، غزہ کے باشندوں کے لئے سخت ترین سال

غزہ کا محاصرہ ختم کرانے کے لئے قائم عوامی کمیٹی کے سربراہ جمال الخضری نے 2017 کو معاشی اور انسانی مسائل کے لحاظ سے سخت ترین سال قرار دیا ہے۔

غزہ ایک ملک نہیں ہے ، غزہ فلسطینی سرزمین کا ایک حصہ ہے، لیکن اس سبب سے کہ یہاں کے عوام نے مزاحمت کو غاصب صیہونی حکومت کے ساتھ سازباز پر ترجیح دی ہے اور وہ فلسطینی سرزمین کا دفاع کر رہے ہیں، اس لئے اسے فلسطین کے دیگر علاقوں سے زیادہ اسرائیلی بربریت کا سامنا ہے۔ صیہونی حکومت نے دوہزار چھ سے غزہ کا  ہمہ جہتی محاصرہ کر رکھا ہے کیوں کہ یہ غاصب حکومت فلسطین اورغزہ میں جاری سیاسی عمل کو اپنے مفادات کے منافی سمجھتی ہے۔ 

گیارہ سال کا عرصہ گذرجانے کے باوجود، غزہ کا محاصرہ نہ صرف ختم نہیں ہوا ہے بلکہ اس علاقے میں کسی بھی قسم کی انسان دوستانہ امداد پہنچائے جانے کی روک تھام کی جا رہی ہے۔اسرائیل نے اب تک غزہ پر تین جنگیں 2008 ، 2012 اور 2014 میں مسلط کی ہیں اور حال ہی میں امریکی صدر کا غیرقانونی فیصلہ، فلسطینی عوام منجملہ غزہ کے عوام کے خلاف اسرائیلی تشدد میں نئی لہر وجود میں آنے کا سبب بنا ہے۔ اس ظالمانہ محاصرے کا نتیجہ، شدید معاشی مسائل اور انسانی المیہ وجود میں آنے کا باعث بن رہا ہے۔ 

غزہ کے اسّی فیصد عوام غربت کی لکیر کے نیچے زندگی گذار رہے ہیں اور اس علاقے میں بے روزگاری کی شرح پچاس فیصد پہنچ چکی ہے- انسانی صحت کی لحاظ سے بھی غزہ کی صورتحال بہت خراب ہے۔ چالیس فیصد بچے غزہ میں کم خونی اور غذائی قلت سے دوچار ہیں۔ پچاس ہزار بچے پیدائشی طور پراور صیہونی حکومت کے حملوں اور جارحیتوں کے باعث معذور ہیں۔ تیرہ ہزار شہری کینسر کی بیماری میں مبتلا ہیں جبکہ ہزاروں شہری خاص طور پر غریب افراد، متعدد بیماریوں میں مبتلا ہیں۔ اور ان کے پاس علاج معالجے کے لئے دوائیں بھی میسر نہیں ہیں۔ اور محاصرے کے سبب غزہ سے بیماروں کو غرب اردن یا دیگر ملکوں کے اسپتالوں اور طبی مراکز تک منتقل کرنے کا بھی امکان نہیں ہے۔ 

ایسے میں جبکہ بعض عرب ممالک نے غزہ کی تعمیرنو کے لئے وعدے دیئے ہیں تاہم وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ ان کے عملی ہونے میں کمی آتی جا رہی ہے اور اس وقت صورتحال ایسی ہے کہ بعض عرب ملکوں خاص طور پر سعودی عرب  کے توسط سے اسرائیل کے ساتھ تعلقات کی بحالی کے مسئلے نے غزہ کو مزید فراموشی کے سپرد کردیا ہے۔

اس صورت حال نے دنیا کو صیہونی حکومت کے خلاف بڑے پیمانے پر اقدامات کا جائزہ لینے کے لئے پرعزم کر دیا ہے اور یہ موضوع حالیہ برسوں میں فلسطینی عوام کی حمایت میں عالمی تحریک شروع ہونے پر منتج ہوا ہے- غزہ میں صیہونی حکومت کے جرائم ایسے ہیں کہ یہ حکومت اب عوام کو دھوکے میں رکھتے ہوئے غزہ میں اپنے جرائم پر پردہ نہیں ڈال سکتی- ان حالات میں عالمی برادری کو چاہئے کہ صیہونی حکومت کے مقابلے میں اپنی لچکدار پالیسیوں کو ترک کر کے، قدس کی غاصب حکومت کو غزہ میں جرائم جاری رکھنے کا اس سے زیادہ موقع نہ دے اور اس طرح اس ٹریجڈی کو ختم کرے جو اس نے غزہ میں رقم کی ہے-

آخر میں یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ گذشتہ روز اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں ایک سو اٹھائیس ملکوں نے قدس کے بارے میں ٹرمپ کے فیصلے کی مذمت میں ووٹ دے کر یہ ثابت کردیا کہ عالمی برادری فلسطینیوں خاص طور پر غزہ کے عوام کے خلاف اسرائیل کی جارحیت اور اس کے لئے امریکی حمایت جاری رہنے کی مخالف ہے،  لیکن  غیر منصفانہ بین الاقوامی  نظام کے طریقہ کار خاص طور پر سلامتی کونسل میں ویٹو کا حق، صیہونی جرائم اور جارحانہ اقدامات روکے جانے کی راہ میں رکاوٹ بنا ہوا ہے۔ 

 

ٹیگس