قدس کی قرارداد اور امریکہ کی گوشہ نشینی
قدس کے مسئلے پر عالمی برادری کے ساتھ امریکہ کی زور آزمائی اس ملک خاص طور پر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی بھاری شکست پر منتج ہوئی ہے۔
ایسے میں جبکہ امریکی صدر نے ذاتی طور پر اقوام عالم کو دھمکی دی تھی کہ وہ بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت قراردینے اور امریکی سفارتخانے کی بیت المقدس منتقلی کے بارے میں واشنگٹن کے فیصلے کے حق میں ووٹ دیں، تاہم اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے بھاری اکثریت سے ٹرمپ کے فیصلے کو مسترد کردیا۔ ایک تاریخی ووٹنگ میں اقوام متحدہ کے ایک سو اٹھائیس رکن ملکوں نے قدس کی قرارداد کے حق میں ووٹ دیا -
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 128 رکن ممالک نے بھاری اکثریت سے بیت المقدس کے بارے میں پیش کی گئی قرارداد کو منظور کرلیا اور بیت المقدس کے متعلق امریکی صدر ٹرمپ کے فیصلہ کومسترد کرتے ہوئے امریکی دھمکی کو بھی نظر انداز کردیا۔ جنرل اسمبلی کے اجلاس میں امریکی فیصلے کے خلاف ترکی کی مشترکہ قرارداد پر ووٹنگ ہوئی جس میں قرارداد کے حق میں 128 ممالک نے ووٹ دیا جبکہ مخالفت میں محض 9 ووٹ پڑے اور 35 ممالک نے رائے شماری میں حصہ نہیں لیا۔ اس قرارداد میں ٹرمپ فیصلے کو مضحکہ خیز اور بلاجواز قرار دیا گیا اور امریکہ سے کہا گیا کہ وہ مقبوضہ بیت المقدس کو صہیہونی دارالحکومت تسلیم کرنے کا اعلان فوری طور پر واپس لے.
واضح رہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے دھمکی دی تھی کہ قرارداد کے حق میں رائے دینے والوں کی مالی امداد بند کر دی جائے گی. اقوام متحدہ میں امریکی سفیر نیکی ہیلی نے بھی انتباہ دیا تھا کہ امریکہ یہ دیکھے گا کہ کون سے ملک اقوام متحدہ میں امریکہ کے فیصلے کا احترام نہیں کرتے.واضح رہے کہ چند روز قبل اقوام متحدہ کی قومی سلامتی کا اجلاس بھی منعقد ہوا تھا جس میں ٹرمپ کے فیصلے کے خلاف قرارداد پیش کی گئی تاہم امریکا نے اس قرارداد کو ویٹو کردیا تھا۔
سی آئی اے کے سابق سربراہ جان برنن اس بارے میں کہتے ہیں کہ قدس سے متعلق امریکی موقف کی مخالفت میں جن ممالک نے اپنے حق کا استعمال کیا ہے واقعا حیرت انگیز ہے۔ اس مسئلے نے یہ ثابت کردیا کہ ٹرمپ کو تمام ملکوں سے یہ توقع ہے کہ وہ آنکھ بند کرکے واشنگٹن کی حمایت کریں اور یہ وہی خصوصیت ہے جو بعض جابر و حاکم اور کینہ پرورحکمرانوں میں دیکھی جا رہی ہے-
اس کے ساتھ ہی یہ کہا جا سکتا ہے کہ مخالف ملکوں کے خلاف امریکی صدر کی دھمکیوں پر عملدرآمد کے لئے متعدد آپشن نہیں پائے جاتے۔ مثال کے طور پر مصر افغانستان، عراق اور پاکستان کہ جو امریکہ کی مالی اور فوجی امداد اور حمایت سے بہرہ مند ہیں، ان ملکوں کو علاقائی اور عالمی اسٹریٹیجیز میں خاص اہمیت حاصل ہے اور واشنگٹن کی جانب سے ان کی امداد منقطع کرنے سے امریکی اسٹریٹیجیز کو ناقابل تلافی نقصان اٹھانا پڑیں گے-
دوسری جانب اقوام متحدہ یا اس عالمی ادارے کے بعض ملکوں کی مالی مدد منقطع کرنے یا کم کرنے کے تعلق سے ٹرمپ کی دھمکی پر عملدرآمد کے بعد، ان ملکوں کو چین جیسے بعض ثروتمند ملک خیر مقدم کہیں گے تاکہ عالمی نظام میں امریکہ کی جگہ پر قبضہ کرسکیں- بہرحال دوسروں پر اپنے احکامات اور مطالبات مسلط کرنے کے ٹرمپ کے رجحان، اور واشنگٹن کی توسیع پسندی اور زیادہ خواہی کے خلاف، عالمی سطح پر بغاوت وجود میں آسکتی ہے-