Dec ۲۳, ۲۰۱۷ ۱۷:۳۲ Asia/Tehran
  • شام کے بحران کے حل کے تعلق سے آستانہ مذاکرات کا آٹھواں دور اختتام پذیر

شام کے بحران کے حل کے لئے آستانہ مذاکرات کا سلسلہ جاری ہے اور اس سلسلے میں آٹھویں دور کا اجلاس کل قزاقستان کے شہر آستانہ میں ختم ہوگیا۔

ان اجلاسوں میں شام کے حوالے سے اہم کامیابیاں حاصل ہوئی ہیں کہ جن میں سے اہم ترین سیف زون قائم کرنا ہے۔ آستانہ مذاکرات کے دائرے میں جمعے کو، ایران ، روس اور ترکی کے آٹھویں دور کے سہ فریقی مذاکرات ، شام کے سلسلے میں قومی مذاکرات کے انعقاد کے بارے میں اتفاق رائے کے ساتھ ختم ہوگئے۔  

آستانہ امن مذاکرات کے آٹھویں دور کے موقع پر ہونے والے سہ فریقی اجلاس میں، حسین جابری انصاری، الیکزنڈر لاؤ رنتیف اور سدات اونال نے اپنے اپنے ملکوں کی نمائندگی کی۔ اجلاس میں قیدیوں، مغویوں اور لاشوں کے تبادلے، نیز بارودی سرنگوں کی صفائی کی دستاویز اور آستانہ آٹھ مذاکرات کے مشترکہ بیان کے مندرجات کے بارے میں تبادلہ خیال کیا گیا۔ آستانہ امن مذاکرات ایران روس اور ترکی کے مشترکہ اقدامات کے نتیجے میں شروع ہوئے ہیں جن کا مقصد بحران شام کو سیاسی طریقے سے حل کرنا ہے۔ آستانہ امن مذاکرات کا آٹھواں دور جمعرات کو شروع ہوا تھا اور جمعے تک جاری رہا۔

عالمی مسائل کے ماہر اور ایران کی وزارت خارجہ کے ایک عہدیدار محمد رضا دھقانی پودہ، آستانہ مذاکرات کے عمل کے بارے میں کہتے ہیں: شام کے بحران نے ایک سخت مرحلہ طے کرلیا ہے اور اب یہ ملک خطرناک مراحل اور سناریو سے گذر چکا ہے۔ ان سناریو میں سے ایک، شام کی حکومت کو گرانا اور یوگوسلاویہ کی طرح شام کو تقسیم کرنا تھا۔ 

اس وقت داعش کے تسلط کے ذریعے شام کے نظام کو تبدیل کرنے کی اسٹریٹیجی ناکام ہوچکی ہے اور علاقائی و بین الاقوامی اسٹریٹیجیز نے علاقے میں امن و سلامتی کی بحالی کے لئے اپنے موثر ہونے کو ثابت کر دکھایا ہے۔ اقوام متحدہ کی حمایت سے ایران ، روس اور ترکی کے باہمی تعاون نے، شام میں علاقائی راہ حل کے موثر استفادے کا امکان فراہم کیا ہے۔ آستانہ کے آٹھویں اجلاس کے بیان کے مطابق تینوں ملک، اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد 2254 کے مطابق اس بحران کے سیاسی راہ حل کے حصول میں مدد کے لئے پرعزم ہیں۔  اس کے ساتھ ہی امریکہ اور علاقے کے بعض ممالک خاص طور پر سعودی عرب بدستور علاقے میں اسرائیلی اہداف کی راہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔

اس سلسلے میں دو سناریو پائے جاتےہیں:

پہلا سناریو شام کی موجودہ صورتحال کو تبدیل کرنا ہے۔ اس سناریو میں امریکہ کی یہ کوشش ہے کہ شام میں داعش کے خاتمے کے بعد اس ملک میں اپنی فوجی موجودگی اور اثر و رسوخ کو باقی رکھے۔ اور دوسرا سناریو یہ ہے کہ شام کی خارجہ پالیسی کو غیر فعال  اور علاقے سے استقامتی محاذ کا خاتمہ کردیا جائے۔ اسرائیل اس طرح سے شام کو ایک کمزور ملک میں تبدیل کرنے اور خانہ جنگی میں الجھانے کے درپے ہے۔  ان دو سناریو کے پیش نظر، قومی مذاکرات کے انعقاد کے محور میں آستانہ مذاکرات کا اہم مقصد ، شام کی جیوپولیٹیکل پوزیشن کو باقی رکھتے ہوئے اس ملک کی حکومت کو ایک مستحکم حکومت بنانے میں مدد کرنا ہے۔ 

اسی تناظر میں آستانہ میں شام کے امور میں اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندے اسٹیفن ڈی مستورا کے ساتھ ملاقات میں ایران کے نائب وزیر خارجہ حسین جابری انصاری نے ان کوششوں سے آگاہ کیا جو تہران، شام کے بحران کو حل کرنے اور انسان دوستانہ امداد کی فراہمی کو آسان بنانے کی غرض سے انجام دے رہا ہے۔ اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندے اسٹیفن ڈی مستورا نے بھی اس ملاقات میں اس موقع پر ایران کے نائب وزیر خارجہ کو شام مخالفین کے ساتھ ہونے والے آٹھویں دور کے نتائج اور آئندہ کے مذاکرات کے لیے اقوام متحدہ کی کوششوں سے آگاہ کیا۔ اسی دوران ایران اور شام کے وفود نے بھی آستانہ میں ایک دوسرے سے ملاقات کی اور بحران شام میں الجھے ہوئے فریقوں کے درمیان قیدیوں، مغویوں اور لاشوں کے تبادلے جیسے معاملات پر تبادلہ خیال کیا۔

ٹیگس