بیت المقدس اور فلسطینیوں کے خلاف ٹرمپ کی نئی سازش
امریکی صدر مشرق وسطی کے حالات خراب کرنے کی ذمہ داری قبول نہ کرنے کے تناظر میں عالمی انتباہات کے باوجود ملت فلسطین اور مسلمانوں کو منفی پیغامات بھیجنے کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔
امریکی صدر ٹرمپ کے اسلام دشمن اور فلسطین مخالف رویے کی جڑیں صیہونیزم حامی عیسائی کی حیثیت سے ان کی فکری بنیادوں میں تلاش کرنا چاہئے- امریکی صدر عالمی و علاقائی سطح پر بحرانوں کو کنٹرول کرنے اور پرامن بقائے باہمی کے اصولوں پر بھی بالکل یقین نہیں رکھتے اور اسی بنا پر جب سے وہ برسراقتدار آئے ہیں اس وقت سے ہی اپنے اشتعال انگیز اقدامات کے ذریعے ان بحرانوں کو ہوا دے رہے ہیں۔ بیت المقدس کو صیہونی حکومت کا دارالحکومت کے طور پر تسلیم کرنے کا ٹرمپ کا اشتعال انگیز موقف اور امریکی سفارت خانہ بیت المقدس منتقل کرنے کا فیصلہ انھیں اقدامات کا حصہ ہے- یہ ایسی حالت میں ہے کہ معتبر ذرائع سے ملنے والی اطلاعات کے مطابق امریکی حکومت جلد ہی فلسطین اور مقبوضہ بیت المقدس کے سلسلے میں نہایت ہی خطرناک منصوبہ پیش کرنے کا ارادہ رکھتی ہے- اس سلسلے میں فلسطین کی تحریک حماس کے سیاسی شعبے کے سربراہ اسماعیل ہنیہ نے تاکید کے ساتھ کہا ہے کہ بعض موثق ذرائع سے موصولہ اطلاعات کے پیش نظر امریکی حکومت جلد ہی بیت المقدس اور فلسطین کے بارے میں نہایت خطرناک منصوبہ پیش کرنے والی ہے- انھوں نے مزید کہا کہ ان اقدامات اور منصوبوں میں اسرائیل کو ایک یہودی حکومت کے عنوان سے تسلیم کرنے، یہودی کالونیوں کو مقبوضہ علاقوں میں ضم کرنے اور جلاوطن فلسطینیوں کی وطن واپسی کے حق کو منسوخ کرنے کی جانب اشارہ کیا جا سکتا ہے-
صیہونی حکومت کو ایک یہودی حکومت کے طور پر تسلیم کرنے کا مقصد ، فلسطین سے تمام فلسطینیوں کو باہرنکالنا، ایسی فلسطینی حکومت کی تشکیل کوروکنا کہ جس کا دارالحکومت بیت المقدس ہو اور مجموعی طور پر فلسطینیوں کے حقوق کو پوری طرح پامال کرنا ہے۔ زمانہ گذرنے کے ساتھ یہ ثابت ہوجائے گا کہ ایک پرانے تاجر کہ جسے قسمت نے امریکہ کا صدر بنا دیا ہے کی حرکتوں کی پیشگوئی کرنا زیادہ آسان نہیں ہے- بعض کا کہنا ہے کہ ٹرمپ کا مقصد فلسطینیوں پر دباؤ ڈال کر صیہونیوں کے لئے نئی کامیابیاں رقم کرنا اور مزید علاقوں پر قبضے کی امید میں موجودہ نظام کو درہم برہم کرنا ہے - جبکہ ایک گروہ کا خیال ہے کہ امریکی صدر نام و نمود کے بھوکے ہیں اور ہمیشہ شہ سرخیوں میں رہنا چاہتے ہیں اور اس کے لئے احمقانہ حرکتیں کرنے سے بھی باز نہیں آتے- بعض لوگوں کا خیال ہے کہ وہ وائٹ ہاؤس میں پہنچنے کے ایک سال بعد بھی مسلسل اپنے کو ثابت کرنے اور اپنے انتخابی وعدوں پر عمل درآمد کرنا چاہتے ہیں اور اسی لئے وہ یکے بعد دیگرے اپنے ان وعدوں پرعمل کررہے ہیں جو انھوں نے انتخابی مہم کے دوران کئے ہیں اور جن کے انجام و نتائج سے وہ بے خبر ہیں- اس سلسلے میں تھومس فریڈ مین جیسے امریکی تجزیہ نگار بھی ٹرمپ کی صورت حال کی وضاحت کرتے ہوئے انھیں ایک ایسے سیاح سے تشبیہ دیتے ہیں جس کی بس کھو گئی ہو۔
ڈونالڈ ٹرمپ چاہتے ہیں کہ دنیا کو وائٹ ہاؤس میں ناقابل پیشگوئی فیصلے کرنے والے نئے صدر پرتکیہ کرنے کا عادی بنا دیں اور یہ منوانے کے لئے وہ زیادہ سے زیادہ احمقانہ حرکتیں کرتے ہیں جس کی ایک مثال بیت المقدس کے بارے میں ان کے خطرناک منصوبے ہیں- لیکن ٹرمپ کے ان کاموں کا نتیجہ تیسری تحریک انتفاضہ کے مزید شعلہ ور ہونے کے سوا کچھ نہیں نکلے گا کہ جو بیت المقس کے بارے میں ان کے فیصلے کی وجہ سے شروع ہوچکی ہے- فلسطینیوں کی تیسری تحریک انتفاضہ زیادہ وسیع خصوصیات کی حامل ہے کہ جسے عرب و اسلامی انتفاضہ کے عنوان سے یاد کیا جاتا ہے اور جس نے پہلے سے زیادہ صیہونی حکومت اور اس کے حامیوں کے اندازوں کو درہم برہم کردیا ہے اور وہ غیریقینی کی حالت میں بیت المقدس کے سلسلے میں اپنی سازشوں کی ناکامی کو دیکھ رہے ہیں۔ حالیہ دنوں علاقے میں رونما ہونے والے حالات، ایک بار پھربیت المقدس کے بارے میں خودغرضی پر مبنی پالیسیوں پر ٹرمپ کے اصرار کے بعد امریکہ کی مشرق وسطی پالیسیوں کی ناکامیوں کا ایک نمونہ ہیں- بین الاقوامی سطح پر امریکہ کا تنہا ہونا اور بین الاقوامی برادری میں اس کا نفوذ کم ہونا اس بات کا عکاس ہے کہ ٹرمپ کے دور میں سیاسی و سفارتی سطح پر امریکہ کی طاقت کا گراف نہایت تیزی سے گرنا شروع ہوگیا ہے۔