امریکہ کو پاکستانی حکومت کی نصیحت
پاکستان کے وزیرخارجہ نے اس ملک کے خلاف امریکی دھمکیوں کو بے بنیاد اور لاحاصل قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ واشنگٹن کو چاہئے کہ وہ دہشتگردی کا مقابلہ کرنے کے لئے اسلام آباد کے تجربات سے استفادہ کرے-
پاکستانی وزیرخارجہ خواجہ آصف کا کہنا ہے کہ واشنگٹن، اسلام آباد کے خلاف جو بیان جاری کرتا ہے وہ جنگ افغانستان میں ناکامی قبول کرنے کے مترادف ہے اور اس کا کوئی اور مطلب نہیں ہے- خاص طور پر ایسی حالت میں کہ یہ پہلی بار نہیں جب امریکہ افغانستان میں اپنی ناکامی چھپانے کے لئے اسلام آباد پر دہشتگردی کی حمایت کرنے کا الزام لگا رہا ہے- امریکہ کے سلسلے میں پاکستان کے وزیرخارجہ کے بیانات افغانستان میں فوجی موجودگی جاری رکھنے کے سلسلے میں واشنگٹن کو ایک سنجیدہ انتباہ ہے- امریکہ نے پاکستان کے خلاف اپنے تازہ ترین موقف میں کہ جس پر امریکہ کی قومی سلامتی کی نئی اسٹریٹیجی میں بھی تاکید کی گئی ہے، اسلام آباد پر ایک بار پھر دہشتگردی کی حمایت کرنے کا الزام لگایا ہے- پاکستان کا خیال ہے کہ امریکہ ، افغانستان میں اپنی ناکامی کے سلسلے میں تشویش میں مبتلا ہے اور اس ملک کے سلسلے میں اپنی ناکامی کی وجہ پاکستانی حکومت کی جانب سے عدم تعاون کو سمجھتا ہے- یہ ایسی حالت میں ہے کہ حکومت پاکستان کا کہنا ہے کہ امریکہ کی افغانستان میں بلاکسی مشکل کے موجودگی پاکستانی فوج کے تعاون کی وجہ سے ہے اور اگرپاکستان کا تعاون نہ ہوتا تو امریکہ کو افغانستان میں نہایت پیچیدہ اور مشکل حالات کا سامنا کرنا پڑتا اس کے باوجود پاکستانی فوج امریکی مدد کی وجہ سے باہمی تعلقات کا لحاظ کرتی ہے-
پاکستان میں سیاسی امور کے ماہر اور تجزیہ نگار سید محمد علی رضوانی کا کہنا ہے کہ اس وقت امریکہ کے ساتھ پاکستان کے تعلقات نہایت خراب ہیں اس کے باوجود پاکستانی، اس کشیدگی کو امریکہ کے ساتھ براہ راست جھڑپ تک نہیں پہنچنے دیں گے کیونکہ اس کے کمزور پہلو بہت سے ہیں- اسلام آباد ، امریکہ اور برطانیہ سے سالانہ تقریبا دوارب ڈالر مدد حاصل کرتا ہے جس نے پاکستانی فوج کو ایک وابستہ فوج میں تبدیل کردیا ہے-
ایسا نظرآتا ہے کہ افغانستان اور ہندوستان کے سلسلے میں حکومت پاکستان کی درخواستوں پرامریکہ کا توجہ نہ دینا واشنگٹن اور اسلام آباد کے تعلقات میں کشیدگی کا سب سے بڑا سبب ہے- پاکستان افغانستان میں ہندوستان کا نفوذ کم کرنے کا خواہاں ہے اور اس کے ساتھ ہی یہ بھی مطالبہ کرتا ہے کہ امریکہ نے جیسا ایٹمی معاہدہ ہندوستان سے کیا ہے ویسا ہی پاکستان کے ساتھ بھی کرے- اسلام آباد یہ بھی چاہتا ہے کہ امریکہ ، ڈیورنڈ لائن کو پاکستان اور افغانستان کے درمیان بین الاقوامی سرحد کے طور پرتسلیم کرے- طالبان کے سلسلے میں بھی پاکستان، افغانستان کے سیاسی ڈھانچے میں اس گروہ کا مناسب حصہ چاہتا ہے جبکہ امریکہ پاکستان کی ان درخواستوں پر توجہ دیئے بغیر افغانستان کے سلسلے میں پاکستان کے خفیہ ادارے آئی ایس آئی کے موقف میں تبدیلی کا خواہاں ہے-افغانستان کے سیاسی امور کی ماہر رہا نیک آئین کا کہنا ہے کہ پاکستان سے امریکہ کا اصلی مطالبہ یہ ہے کہ وہ افغانستان میں خوف و وحشت کو روکے- افغانستان امن کے عمل میں پاکستان کا کردار فیصلہ کن ہے اور اگر پاکستان اس عمل میں مدد نہیں کرے گا تو بعید نظرآتا ہے کہ افغانستان میں امن کی کوششیں مثبت نتیجے تک پہنچ سکیں-
بہرحال پاکستان، افغانستان کے آئندہ حالات کو اپنے کنٹرول میں لے کر اور اس ملک کی پیچیدہ صورت حال کے سلسلے میں امریکہ کو خبردار کر کے اسلام آباد کے مطالبات پرامریکہ کی توجہ چاہتا ہے- یہ ایسی حالت میں ہے کہ امریکہ ، اپنی علاقائی پالیسی میں پاکستان کی جگہ ہندوستان کو دے کر اسلام آباد کو پہلے سے زیادہ تنہا کرنا چاہتا ہے اور یہ وہ پالیسی ہے کہ جو پاکستان کی نظر میں واشنگٹن کے لئے ناگوار نتائج کی حامل ہوگی-