Jan ۰۲, ۲۰۱۸ ۱۷:۳۶ Asia/Tehran
  • جنوبی کوریا نے شمالی کوریا کے پیغام سال نو کا خیر مقدم کیا

جنوبی کوریا نے پیونگ یانگ اور سئول کے درمیان مذاکرات کا دروازہ کھلے رہنے پر مبنی شمالی کوریا کے رہنما کے نئے سال کے پیغام کا خیر مقدم کیا ہے-

جنوبی کوریا کی وزارت خارجہ نے شمالی کوریا کے رہنما کیم جونگ اون کی جانب سے نئے سال کے مبارکبادی کے اس پیغام کا، جس میں دونوں ملکوں کے درمیان مذاکرات کا دروازہ کھلے رہنے کا اعلان کیا گیا ہے، خیرمقدم کرتے ہوئے کہا ہے کہ سئول پیونگ یانگ کے ساتھ مذاکرات کے ذریعے اختلافات کا حل چاہتا ہے- شمالی کوریا کے رہنما نے نئے عیسوی سال 2018 کی مناسبت سے ٹیلی ویژن سے اپنے نشری خطاب میں خبردار کیا ہے کہ پورا امریکا، شمالی کوریا کے ایٹمی ہتھیاروں کی زد پر ہے- کیم جونگ اون نے کہا کہ واشنگٹن شمالی کوریا کے خلاف جنگ چھیڑنے کی توانائی نہیں رکھتا - انہوں نے ساتھ ہی دونوں کوریاؤں کے درمیان کشیدگی کو ختم اور مذاکرات کا دروازہ کھلا رکھنے پر تاکید کی۔

شمالی کوریا کے رہنما کیم جونگ اون نے اپنے نشری خطاب میں کہا کہ ایٹمی ہتھیاروں کا بٹن دبانے کا آپشن ہمیشہ میز پر موجود ہے- انہوں نے صراحت کے ساتھ کہا کہ پیونگ یانگ بھاری تعداد میں ایٹمی ہتھیار اور بیلسٹک میزائل بنانے میں سرگرم ہے- شمالی کوریا کے رہنما نے نئے سال کی مناسبت سے اپنی نشری تقریر میں امریکہ کو خبردار کرنے کے علاوہ، جنوبی کوریا کے ساتھ مذاکرات کا دروازہ کھلے رہنے کی بات کی اور کہا کہ ہمارے کھلاڑی آئندہ ماہ جنوبی کوریا میں ہونے والے سرمائی اولمپیک مقابلوں میں شرکت کر سکتے ہیں- انہوں نے کہا کہ میری دلی خواہش ہے کہ جنوبی کوریا میں ہونے والے سرمائی اولمپیک کے مقابلوں میں دنیا کے سبھی ملکوں منجملہ شمالی کوریا کے کھلاڑی شرکت کریں- شمالی کوریا کے رہنما نے کہا کہ یہ سرمائی اولمپیک بہترین موقع ہے کہ دونوں کوریاؤں کے کھلاڑی دنیا والوں کو اپنی اقدار اور اعلی اخلاق سے روشناس کرائیں-

واضح رہے کہ ماضی میں جنوبی کوریا میں کھیلوں کے بین الاقوامی مقابلوں میں پیونگ یانگ کی شرکت کا دارو مدار جزیرہ نمائے کوریا کی سیاسی اور فوجی صورتحال پر رہا ہے لیکن شمالی کوریا نے دو ہزار چودہ کے ایشیائی مقابلوں میں جو جنوبی کوریا کے شہر اینچئون میں ہوئے تھے اپنے کھلاڑیوں کا پورا دستہ روانہ کیا تھا- دوسری جانب جنوبی کوریا اور سرمائی اولمپیک کا اہتمام کرنے والی کمیٹی نے کھیلوں کے ان مقابلوں کو امن کے اولمپیک کا نام دیا ہے اور کہا ہے کہ ہم چاہتے ہیں کہ ان مقابلوں میں شمالی کوریا بھی شرکت کرے- جنوبی کوریا میں سرمائی اولمپیک جہاں ہو رہا ہے وہ شہر دونوں کوریاؤں کی سرحدوں سے صرف اسّی کلومیٹر دور واقع ہے جبکہ سرحدوں پر شدید کشیدگی پائی جا رہی ہے- المپیک کے کھیل ، کھیل کی ڈپلومیسی سے استفادے کے لئے سئول اور پیونگ یانگ کے درمیان باہمی اتحاد اور یکجہتی کی تقویت کے لئے ایک مناسب موقع شمار ہوتے ہیں۔ 

سیاسی مسائل کے ماہرڈینیل ورنہ کہتے ہیں

شمالی کوریا کے تمام پڑوسی ممالک اس وقت جزیرہ نمائے کوریا کی پوزیشن مضبوط ہونے کے خواہاں ہیں لیکن ایسی پوزیشن نہیں کہ جس میں شمالی کوریا ایک ایٹمی طاقت کی حیثیت سے پہچانا جائے-

اس کے علاوہ امریکہ ، جنوبی کوریا اور شمالی کوریا کے درمیان اتحاد کے مخالفین میں سے ہے اور جب کبھی ان ملکوں نے مذاکرات کی سمت میں قدم اٹھایا ہے امریکہ نے علاقے میں بحران پیدا کرنے کی کوشش کی ہے۔ امریکہ جزیرہ نمائے کوریا میں بحران کو ہوا دینے کے درپے ہے کیوں کہ اس طریقے سے وہ چین پر بھی اپنا دباؤ بڑھا رہا ہے اور جنوبی کوریا اور جاپان میں بھی اپنی فوجی پوزیشن مضبوط کررہا ہے۔ یہ ایسی حالت میں ہے کہ ماہرین کا خیال ہے کہ دونوں کوریاؤں کے درمیان مذاکرات کے لئے ضروری ہے کہ ہر قسم کے اشتعال آمیز اور کشیدگی پھیلانے والے اقدامات سے اجتناب کیا جائے-  

دونوں کوریاؤں کے رہنما اس حقیقت سے مکمل طور پر واقفیت رکھتے ہیں کہ دونوں ملکوں کے درمیان اختلافات کے حل کی واحد راہ مذاکرات اور افہام و تفہیم ہے- جزیرہ نمائے کوریا کہ جو دوسری عالمی جنگ اور پچاس کے عشرے کے ابتدائی برسوں کی جنگوں کے بعد دوحصوں شمالی اور جنوبی میں تقسیم ہوگیا تھا اب ایک بار پھر متحد ہونے اور آپس میں ملنے کا بہت زیادہ رجحان رکھتا ہے اور حالیہ برسوں کے دوران اس سلسلے میں اقدامات بھی عمل میں لائے گئے ہیں۔ اس کے باوجود اس راہ میں بہت سی ایسی مشکلات اور رکاوٹیں بھی موجود ہیں کہ جن میں سب سے پہلے دونوں کوریاؤں کی فوجی اور صنعتی صورتحال کا غیرمتوازن ہونا ہے-

بہر صورت دونوں کوریاؤں کے رہنماؤں اور حکام نے بارہا مشکلات کے حل کے لئے مذاکرات انجام پانے کے سلسلے میں اپنی دلچسپی کا اظہار کیا ہے اور اس سلسلے میں قدم بھی اٹھائے ہیں لیکن وہ چیز جو اہم ہے یہ ہے کہ جنوبی کوریا کو چاہئے کہ وہ امریکہ سے الگ ہوکر خود مستقل طورپر موقف اختیار کرے اور اپنے فوجی پروگرام روک دے اور اعتماد بحال کرنے کے لئے وہ واشنگٹن کے ساتھ پے درپے فوجی مشقیں انجام دینے سے پرہیز کرے تاکہ مذاکرات اور اختلافات کے حل کا راستہ فراہم ہوسکے۔

 

 

 

 

 

  

ٹیگس